مروان بن معاویہ فزاری نے کہا: ہمیں سعید بن عبید طا ئی نے علی بن ربیعہ سے حدیث سنا ئی انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند روایت کی۔
امام صاحب نے حضرت مغیرہ بن شبعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث ایک اور استاد سے بیان کی ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2159
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) میت پر گھر والوں کے رونےکے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں (1) پہلا قول یہ ہے کہ میت پر مطلقاً بلا قید وعمومی طور پر رونا حرام ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے یا اس صورت میں ممنوع ہے جبکہ مرنے والے کے سامنے اس پر رویا جاتا ہے اور وہ روکنے کی قدرت کے باوجود نہیں روکتا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت صہیب اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو روکنے سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ رونا مطلقاً میت کے لیے عذاب کا باعث نہیں بنتا، کیونکہ یہ اس کا فعل نہیں ہے دوسروں کے فعل کا اس سے کیسے مواخذہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾”کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی﴾ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ یہی تھا بعض شوافع کا خیال بھی یہی ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بطور دلیل یہ آیت بھی پیش کی کہ: ﴿وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكي﴾”اللہ ہی نے ہنسایا اورر لایا ہے“ لیکن جمہور امت اور آئمہ کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی احادیث اور معارضہ میں پیش کی جانے والی آیات میں تضاد نہیں ہے اور یہ روایت اور بھی کئی صحابہ سے ثابت ہے اس لیے صحیح بات یہ ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مختلف روایات سے ثابت ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ میت پر اس کے اعزہ واقارب اور دوست واحباب کا شدت غم وحزن کے سبب رنجیدہ اور غمگین ہونا اور اس کے نتیجہ میں ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا اور اسی طرح گریہ کے بےاختیار دوسرے آثار کا نمودارہونا ایک فطرتی امر ہے۔ اس پرمواخذہ نہیں ہے لیکن اس پر نوحہ اور ندبہ دعویل کرنا قابل مؤاخذہ ہے۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بعض جگہ (بعض البكاء) بعض رونوں کا ذکر ہے بعض جگہ بمایخ علیہ ہے جو اس پر نوحہ کیا گیا اور بعض جگہ (يَعُولُ عُلَيْهِ حَفصَةُ وَعَوَّلَ عَلَيْهِ صُهَيْب) کہ حفصہ اور صہیب ان پر بلند آواز سے روئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: (الْمُعْوَلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ)(جس پر چیخا ہے اور چلایا گیا ہے اس کو عذاب ہو گا) گویا عذاب کا تعلق رونے سے نہیں یہ فطری چیز ہے ممانعت کا تعلق زبان سے ہے کہ اس سے غلط قسم کے کلمات اور آواز نکلتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ: (إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ) کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج و غم پر سزا نہیں دیتا۔ کیونکہ اس پر بندہ کا اختیار اور قابو نہیں۔ (وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا) زبان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اس کو غلط روی نوحہ و ماتم چیخ و پکار اور واویلا یا ندبہ دیتا ہے۔ (لا يرحم) اس کی سلامت روی دعا واستغفار امة الترجاع (انااللہ پڑھنا) پر رحمت فرماتا ہے۔ (2) جمہورامت کے نزدیک میت پر بین اور نوحہ کرنا گریبان چاک کرنا رخسار پیٹنا سر پر خاک ڈالنا میت کے عذاب میں اضافہ کا سبب تب بنتے ہیں جب میت کا ان میں دخل ہو یا وہ ان کا باعث اور سبب ہو یا داعیہ اور محرک ہو جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے۔ : (إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ) کہ اللہ تعالیٰ کافرکے عذاب میں اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب اضافہ کرتا ہے کیونکہ کافر اس کا محرک یا باعث و سبب ہوتا ہے، اس کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ﴿وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ﴾(اور یہ لوگ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی) اور آپﷺ نے ہرقل کو لکھا تھا: (فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ) اگر تونے ایمان لانے سے اعراض کیا تو تیری قوم کاگناہ بھی تجھے پر ہو گا اس لیے امام بخاری کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اقوال میں تعارض نہیں ہے کیونکہ ان باپ بیٹا کا تعلق اس میت سے ہے جس نے اپنے اہل وعیال کے لیے غلط نمونہ اور غلط طرز عمل چھوڑا کہ (إِذَا كَانَ النوحُ مِن سُنَّتِهِ) کہ نوحہ کرنا بین کرنا یا چیخنا چلانا اس کا وطیرہ اور رویہ تھا۔ اہل و عیال نے اس سے سیکھ کر یہ کام کیا جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ قابیل کو ہر قتل کے گناہ سے حصہ ملتا ہے۔ (لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ القَتْلَ) کہ قتل کا طریقہ سب سے پہلے اس نے نکالا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ جب اہل وعیال کے غلط طور طریقہ اور غلط وطیرہ میں میت کا دخل نہیں ہے تو ﴿أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ کے اصول کے مطابق میت کو عذاب کیسے دیا جائے گا۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فرمانا، وہ غلطی کر گئے یا بھول گئے یا انھوں نے مکمل حدیث نہیں سنی بقول امام قرطبی درست نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں اقوال میں تعارض نہیں (2) لیکن اکثر علماء کا خیال ہے کہ عذاب اس صورت میں ہے جبکہ مرنے والا خود رونے اور نوحہ و ماتم کرنے کی وصیت کر گیا ہو جیسا کہ عربوں میں اس کا رواج تھا۔ (3) بعض حضرات کا خیال ہے عذاب اس صورت میں ہو گا جب اس کے خاندان اور قوم و قبیلہ میں مرنے والے پر نوحہ اور ماتم کرنے کا رواج ہو اور اس نے کبھی ان کو اس کام سے روکا نہ ہو۔ یعنی ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کی ہو اور نہ ہی مرتے وقت انہیں اس کا م سے روکا ہو۔ (4) گھر والے جن افعال یا محاسن اور خوبیوں کو یاد کر کے رو رہے ہیں وہی افعال اور کارنامے اس کے عذاب کا باعث بنتے ہیں کیونکہ جاہلیت کے دور میں لوگ قتل وغارت اغوا اور دہشت گردی کا ارتکاب کرتے تھے اور رونے والے انہیں برے افعال کا نام لے کر اس پر روتے تھے یعنی وہ ریاست و سرداری جس کے بل بوتے پر لوگوں پر ظلم و ستم ڈھایا تھا اور وہ شجاعت وبسالت جس کی بنا پر لوگوں کی عزت ومال لوٹا کرتا تھا وہ محاسن اور خوبیاں شمار کر کے نوحہ کیا جاتا تھا۔ (5) تعذیب سے مراد گھر کے افراد کے ندبہ کرنے پر فرشتوں کا سرزنش اور توبیخ کرنا مراد ہے کہ جب نوحہ کرنے والی کہتی ہے۔ (وَاعَضُدَاهُ) ہائے میرے بازو (وانا صَرَاهَا) ہائے میرے معاون و مددگار (واكاسياه) ہائے مجھے لباس پہننانے والے تو فرشتے میت سے کہتے ہیں کیوں جناب آپ ایسے ہی تھے؟(6) جب مرنے والے کے احباب اور رشتہ دار میت پر روتے پیٹتے اور نوحہ بین کرتے ہیں تو میت کو ان کے انہیں غلط کاموں سے تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے قاضی عیاض اور ابن قیم وغیرہا نے اس توجیہہ کو پسند کیا ہے۔ (3) بدر کے کنویں میں مشرکوں کی لاشوں کا آپ کی بات سننا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلطی کھا گئے ہیں یا بھول گئے ہیں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا: (إنهم يَسمعون ما أقولُ) کہ میری بات سن رہے ہیں لیکن جمہور امت نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ دوسرے صحابہ سے بھی یہ مروی ہے حضرت خود تسلیم کر رہے ہیں آپﷺ نے فرمایا (يَعلَمُونَ مَا أَقُولُ) گویا (يَسمعون) کے الفاظ نہیں فرمایا اور ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ﴾ کا مطلب ہے کہ آپ کے سنانے کا اب ان کو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ دارالعمل سے نکل چکے ہیں اور آپ کا تبلیغ ووعظ کا ان سے تعلق ختم ہو چکا ہے اس لیے صحابہ کرام نے آپ سے عرض کیا تھا۔ (يا رسول الله صلي الله عليه وسلم تخاطب قوماً قد جيفوا؟) اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو لاشیں بن چکے ہیں اور ظاہر بات ہے اسباب عادیہ یا وسائل طبیعہ کی روسے کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ مردوں کو اپنی بات سنا سکے، لیکن اللہ تعالیٰ اسباب ظاہر یہ اور عادیہ کا پابند نہیں ہے وہ مسبب الاسباب ہے وہ پوشیدہ اور باطنی اسباب پیدا کرلیتا ہے جو عام اسباب کے خلاف ہوتے ہیں اس لیے قانون اور ضابطہ یہی ہے کہ ہم مردوں کو نہیں سنا سکتے لیکن ﴿إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ﴾ اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنا سکتا ہے ﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ﴾ آپﷺ قبر والوں کو نہیں سنا سکتے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بات سنا دی، وہ تو آسمان و زمین کو بات سنا دیتا ہے اور اس نے تمام انسانوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے اپنی بات سنا دی تھی وہ مردوں کو زندوں کے جوتوں کی آہٹ سنا دیتا ہے اگر اس نے اپنے رسول کی بات سنا دی تو اس میں کیا استحالہ ہے اس لیے قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کر کے اپنے نبی کی بات سنا دی اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جواب دیا تھا۔ (مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ) تم میری بات ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو اس لیے خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ الفاظ مروی ہیں کہ (مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ) اس لیے قرآن مجید نے سنانے کی نفی کی ہے سننے کی نفی کی۔ لیکن مردوں سے استغاثہ کرنا ان کو پکارنا اور ان سے دعا کی اپیل کرنا جائز نہیں ہیں کیونکہ یہ تو ہمارے کام ہیں اللہ کا فعل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ ہماری بات بھی سنتے ہیں کیونکہ ہمارا نہ سنا سکنا ایک اصول اور ضابطہ ہے جس سے استثناء بغیر کسی دلیل اور نص کے ممکن نہیں ہے بس جس چیز کے اللہ کے سنانے کی صراحت ہے وہ مان لیں گے۔