830 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن زيد بن خالد الجهني، وابي هريرة، وشبل، قالوا: كنا عند النبي صلي الله عليه وسلم، فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله انشدك الله إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقام خصمه، وكان افقه منه، فقال: اجل يا رسول الله اقض بيننا بكتاب الله، وإيذن لي فلاقل، قال: «قل» : قال ان ابني كان عسيفا علي هذا، وإنه زني بامراته، فاخبرت ان علي ابني الرجم، فافتديت منه بمائة شاة وخادم، ثم سالت رجالا من اهل العلم، فاخبروني ان علي ابني جلد مائة وتغريب عام، وان علي امراة هذا الرجم، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله، المائة شاة والخادم رد عليك، وعلي ابنك جلد مائة وتغريب عام، واغد يا انيس علي امراة هذا، فإن اعترفت فارجمها» ، قال: فغدا عليها فاعترفت، فرجمها. قال سفيان: «وانيس رجل من اسلم» 830 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَشِبْلٍ، قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُنْشِدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهُ مِنْهُ، فَقَالَ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَإِيذَنْ لِي فَلْأَقُلْ، قَالَ: «قُلْ» : قَالَ أَنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَي هَذَا، وَإِنَّهُ زَنَي بِامْرَأَتِهِ، فَأُخْبِرُتُ أَنَّ عَلَي ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَي ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَي امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَي ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَي امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» ، قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا. قَالَ سُفْيَانُ: «وَأُنَيْسٌ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ»
830- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا، اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دے کر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا اس کا مخالف فریق کھڑا ہو ا وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے عرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بولو“ اس نے عرض کی۔ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیا۔ مجھے یہ بتایا گیا۔ کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا، تو میں نے اس کے فدیے کے طور پرایک سوبکریاں اور ایک خادم دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے اس بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے مجھے بتایا۔ کہ میرے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیاجائے گا اور اس بیوی کو سنگسار کیا جائے گا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں تم دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ ایک سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کر دئیے جائیں گے تمہارے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا۔ اے سیدنا انیس رضی اللہ عنہ! تم اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف کرلیتی ہے، تو تم اے سنگسار کردینا۔“ سیدنا انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے پاس گئے، اس عورت نے اعتراف کیا، تو انہوں نے اسے سنگسار کروادیا۔ سفیان کہتے ہیں۔ سیدنا انیس رضی اللہ عنہ کاتعلق اسلم قبیلے سے تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2314، 2695، 2724، 6633، 6827، 6835، 6842، 6859، 7193، 7258، 7260، 7278، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1696، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3040، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4437، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5425، 5426، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5931، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4445، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1433، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2363، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2549، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11567 17018، 17019، 17025، 17026، 17058، 17068، 17086، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17312 برقم: 17316»
831 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا الزهري، قال: ثنا عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن زيد بن خالد، وابي هريرة، وشبل، قالوا: كنا عند النبي صلي الله عليه وسلم فسئل عن الامة تزني قبل ان تحصن، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «إذا زنت امة احدكم، فاجلدوها، فإن عادت فاجلدوها، فإن عادت فاجلدوها، قال في الثالثة، او في الرابعة فبيعوها ولو بضفير» يعني الحبل من الشعر831 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَشِبْلٍ، قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُئِلَ عَنِ الْأَمَةِ تَزْنِي قَبْلَ أَنْ تُحْصَنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ، فَاجْلِدُوهَا، فَإِنْ عَادَتْ فَاجْلِدُوهَا، فَإِنْ عَادَتْ فَاجْلِدُوهَا، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ، أَوْ فِي الرَّابِعَةِ فَبِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ» يَعْنِي الْحَبْلَ مِنَ الشَّعْرِ
831- سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور شبل بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کنیز کے بارے میں دریافت کیا گیا جو محصنہ ہونے سے پہلے زناء کا اراتکاب کرلیتی ہے، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کی کنیز زناء کاارتکاب کرے تو تم اسے کوڑے مارو۔ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو پھر اسے کوڑے مارو۔ اگر وہ پھر ایسا کرے تو پھر کوڑے مارو۔ (راوی کہتے ہیں:) تیسری مرتبہ یا شاید چوتھی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اسے فروخت کردو۔ خواہ ایک رسی کے عوض میں فروخت کرو۔“ (امام حمیدی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں:) روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ ”ضفیر“ سے مراد بالوں سے بنی ہوئی رسی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2152، 2153، 2232، 2234، 2555، 6837، 6839، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1703، 1704، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4444، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7202، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4469، 4470، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1440، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2371، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2565، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17181، 17182، 17183، 17196، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 7513 برقم: 9008»
832 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا صالح بن كيسان، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن زيد بن خالد الجهني، قال: مطر الناس علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم ليلا، فلما اصبحوا قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" الم تسمعوا ما قال ربكم الليلة؟ قال: ما انعمت علي عبادي من نعمة إلا اصبحت طائفة منهم بها كافرين، يقولون: مطرنا بنوء كذا وكذا، فاما من آمن بي وحمدني علي سقياي فذلك الذي آمن بي، وكفر بالكوكب، واما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك الذي آمن بالكوكب، وكفر بي او كفر نعمتي". قال سفيان: وكان معمر حدثنا اولا عن صالح، ثم سمعناه من صالح"832 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: مُطِرَ النَّاسُ عَلَي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَبُّكُمُ اللَّيْلَةَ؟ قَالَ: مَا أَنْعَمْتُ عَلَي عِبَادِي مَنْ نِعْمَةٍ إِلَّا أَصْبَحَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بِهَا كَافِرِينَ، يَقُولُونَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَأَمَّا مَنْ آمَنَ بِي وَحَمِدَنِي عَلَي سُقْيَايَ فَذَلِكَ الَّذِي آمَنَ بِي، وَكَفَرَ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ الَّذِي آمَنَ بِالْكَوْكَبِ، وَكَفَرَ بِي أَوْ كَفَرَ نِعْمَتِي". قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ مَعْمَرٌ حَدَّثَنَا أَوَّلًا عَنْ صَالِحٍ، ثُمَّ سَمِعْنَاهُ مِنْ صَالِحٍ"
832- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ایک مرتبہ رات کے وقت بارش ہوگئی۔ اگلے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو؟ تمہارے پروردگار نے گزشتہ رات کیا ارشاد فرمایا ہے؟ اس نے فرمایا ہے: ”میں جب بھی اپنے بندوں کوکوئی نعمت عطا کرتا ہوں، تو ان میں سے کچھ لوگ کافر ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: ہم پر فلاں، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے۔ لیکن جو شخص مجھ پر ایمان رکھتا ہے، تو وہ میرے سیراب کرنے کی وجہ سے میری حمد بیان کرتا ہے، تو یہ وہ شخص ہے، جو مجھ پرا یمان رکھتا ہے اور ستاروں کا انکار کرتا ہے، لیکن جو شخص یہ کہتا ہے، فلاں، فلاں، ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے، تو وہ ستاروں پرایمان رکھتا ہے، اور میرا انکار کرتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میری نعمت کا انکار کرتا ہے۔“ سفیان کہتے ہیں: معمرنے یہ روایت پہلے صالح کے حوالے سے ہمیں سنائی تھی۔ پھر ہم نے یہ روایت صالح کی زبانی سن لی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 846، 1038، 4147، 7503، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 71، ومالك فى «الموطأ» برقم: 653، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 188، 6132، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1524، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3906، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3080، 6544، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17309 برقم: 17323»
833 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال سفيان: لا ادري زيد بن خالد ام لا، قال: سب رجل ديكا عند النبي صلي الله عليه وسلم، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «لا تسبوا الديك، فإنه يدعو إلي الصلاة» 833 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: لَا أَدْرِي زِيدُ بْنُ خَالِدٍ أَمْ لَا، قَالَ: سَبَّ رَجُلٌ دِيكًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ، فَإِنَّهُ يَدْعُو إِلَي الصَّلَاةِ»
833-عبیداللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: (یہاں سفیان نامی راوی کہتے ہیں: مجھے یہ نہیں پتہ کہ انہوں نے یہ روایت سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے یا کسی اور کے حوالے سے بیان کی ہے) وہ بیان کرتے ہیں۔ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مرغ کو برا کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مر غ کو برانہ کہو۔ کیونکہ وہ نماز کے لیے بلاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5731، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10715، 10716، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5101، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17308 برقم: 22088، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 999»
834 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا يحيي بن سعيد، عن محمد بن يحيي بن حبان، عن ابي عمرة، عن زيد بن خالد الجهني، قال: كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم بخيبر، فمات رجل من اشجع، فلم يصل عليه النبي صلي الله عليه وسلم، وقال: «صلوا علي صاحبكم» ، فنظروا في متاعه، فوجدوا فيه خرزات من خرز يهود، لا يسوي درهمين834 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَي بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ، فَمَاتَ رَجُلٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «صَلُّوا عَلَي صَاحِبِكُمْ» ، فَنَظَرُوا فِي مَتَاعِهِ، فَوَجَدُوا فِيهِ خَرَزَاتٍ مِنْ خَرَزِ يَهُودَ، لَا يَسْوَي دِرْهَمَيْنِ
834- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ خیبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ اشجع قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص فوت ہوگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو۔“ جب لوگوں نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو انہیں اس کے سامان میں یہودیوں کاایک ہارملا جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہیں ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1667، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4853، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1350، 2597، والنسائي فى «المجتبیٰ» رقم: 1958، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2097، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2710، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2848، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18275، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17305»
835 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا يحيي بن سعيد، قال: سمعت يزيد مولي المنبعث، يقول: جاء رجل إلي النبي صلي الله عليه وسلم فساله عن اللقطة، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «اعرف عفاصها ووعاءها ثم عرفها سنة، فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك» قال: وساله عن ضالة الغنم، فقال: «لك او لاخيك او للذئب» وساله عن ضالة الإبل، فغضب حتي احمرت وجنتاه، فقال: «ما لك ولها؟ معها السقاء والحذاء، ترد الماء وتاكل الكلا، حتي ياتيها ربها» قال سفيان:" فبلغني ان ربيعة بن ابي عبد الرحمن يسنده، عن زيد بن خالد، فاتيته، فقلت له: الحديث الذي تحدثه عن يزيد مولي المنبعث في اللقطة وضالة الإبل والغنم هو عن زيد بن خالد، عن النبي صلي الله عليه وسلم؟ فقال: نعم، وكنت اكرهه للراي، فلذلك لم اساله عنه ولولا انه اسنده، ما سالته عن إسناده"835 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ مَوْلَي الْمُنْبَعِثِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْرِفْ عُفَاصَهَا وَوِعَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنِ اعْتُرِفَتْ وَإِلَا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ» قَالَ: وَسَأَلهُ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ، فَقَالَ: «لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ» وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ حَتَّي احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا السِّقَاءُ وَالْحِذَاءُ، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأَكُلُ الْكَلَأَ، حَتَّي يَأْتِيَهَا رَبُّهَا» قَالَ سُفْيَانُ:" فَبَلَغَنِي أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُسْنِدُهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: الْحَدِيثُ الَّذِي تُحَدِّثُهُ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَي الْمُنْبَعِثِ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ هُوَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَكُنْتُ أَكْرَهُهُ لِلرَّأْيِ، فَلِذَلِكَ لَمْ أَسْأَلْهُ عَنْهُ وَلَوْلَا أَنَّهُ أَسْنَدَهُ، مَا سَأَلْتُهُ عَنْ إِسْنَادِهِ"
835-یزید مولیٰ منبعث بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کیا: جو کہیں گری ہوئی ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی تھیلی کو اور اس تھیلی کے منہ پر باندھنے والی رسی کو پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اگر اس کا اعتراف کر لیا جائے، تو ٹھیک ہے ورنہ تم اسے اپنے مال میں شامل کرلو۔“ راوی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے میں دریافت کیاگیا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ یا تمہیں ملے گی، یا تمہارے کسی بھائی کو ملے گی، یا بھیڑیے کو ملے گی“۔ راوی کہتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٖغضبناک ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس کے کیا واسطہ ہے؟ اس کا پیٹ اور اس کے پاؤں ا س کے ساتھ ہیں۔ وہ خود ہی پانی تک پہنچ جائے گااور گھاس کھالے گا، یہاں تک کہ اس مالک اس تک پہنچ جائے گا۔“ سفیان کہتے ہیں۔ مجھے یہ بات پتہ چلی ہے ربیعہ بن ابوعبدالرحٰمن نامی راوی اس روایت کو سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مسند روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے ان سے کہا: وہ حدیث جسے آپ یزید مولیٰ منبعت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، جو گمشدہ چیز کے، گمشدہ اونٹ یا بکری کے بارے میں ہے، تو کیا وہ سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ سفیان کہتے ہیں: میں ان کی رائے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے میں نے ان سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا۔ اگر انہوں نے اس کی سند بیان نہ کی ہوتی، تو میں ان سے اس سند کے بارے میں بھی دریافت نہ کرتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 91، 2372، 2427، 2428، 2429، 2436، 2438، 5292، 6112، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1722، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4889، 4890، 4893، 4895، 4898، وأبو داود فى "سننه برقم: 1704 1706 برقم: 1707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1372، 1373، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2504، 2507، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12175، 12176، 12177 12178، 12179، 12190 12191، 12192، 12208، 12209، 12210، 12211، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17311 برقم: 17320»
836 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا سالم ابو النضر، عن بسر بن سعيد، قال: ارسلني ابو الجهيم، سال زيد بن خالد الجهني، ما سمعت في الذي يمر بين يدي المصلي، فقال: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم، يقول: «لان يمكث احدكم اربعين، خير له من ان يمر بين يدي المصلي» ، لا يدري اربعين سنة، او اربعين شهرا، او اربعين يوما، او اربعين ساعة836 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبُو الْجُهَيْمِ، سَأَلَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ، مَا سَمِعْتَ فِي الَّذِي يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَأَنْ يَمْكُثُ أَحَدُكُمْ أَرْبَعِينَ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي» ، لَا يَدْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ سَاعَةً
836-بسربن سعید بیان کرتے ہیں: ابوجہم نے مجھے بھیجا تاکہ میں سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت کروں کہ آپ نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کے بارے میں کیا حدیث سنی ہے، تو انہوں نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کسی ایک شخص کا چالیس تک ٹھہرے رہنا اس کے لیے اس زیادہ بہتر ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گز ر جائے۔“ تاہم یہ پتہ نہیں ہے، اس سے مراد چالیس سال ہیں، چالیس دن ہیں، یا چالیس گھڑیاں ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري 510، وأخرجه مسلم 507، وأخرجه الدارمي فى «مسنده» برقم: 1456، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 944، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17325، والبزار فى «مسنده» برقم: 3782، والطبراني فى «الكبير» برقم: 5235، 5236»
837 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابن ابي ليلي، عن عطاء بن ابي رباح، عن زيد بن خالد الجهني، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «من جهز غازيا او خلفه في اهله، فقد غزا» 837 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ أَبِي لَيْلَي، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، فَقَدْ غَزَا»
837- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص کسی غازی کو سامان فراہم کرے یا اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کا خیال رکھے، تو اس نے بھی گویا جنگ میں حصہ لیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه محمد بن عبدالرحمٰن بن أبى ليلي وهو سييء الحفظ جداً ولكن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1895، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2064، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3429، 4630، 4631، 4632، 4633، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3180، 3181، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2509، والترمذي فى «جامعه» برقم: 807، 1628، 1629، 1630، 1631، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1744، 2463، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1746، 2759، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8234، 8235، 8236، 8237، 17914، 18013، 18642، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17304 برقم: 17307»