510. حضرت بسر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن خالد نے انہیں حضرت ابوجہیم ؓ کی طرف بھیجا کہ ان سے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق پوچھیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی بابت کیا سنا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جانتا کہ اس پر کس قدر گناہ ہے تو آگے سے گزرنے کے بجائے وہاں چالیس تک کھڑے رہنے کو پسند کرتا۔“ (راوی حدیث) ابوالنضر نے کہا: مجھے یاد نہیں رہا کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہے یا مہینے یا سال۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:510]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس سے پہلی حدیث میں نمازی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سترہ قائم کرنے کے بعد آگے سے گزرنے والے کو پہلے نرمی پھر سختی سے منع کرے۔
اب گزرنے والے کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اس عمل کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہے۔
اس لیے اگر اسے روکا جائے تو اسے نماز کا مضمون ہونا چاہیے کہ اس نے مجھے گناہ اور عذاب آخرت سے بچا لیا ہے۔
واضح رہے کہ اصل روایت میں کوئی ابہام نہیں، بلکہ بسربن سعید نے تو دن مہینہ یا سال کی تعیین کی تھی، آگے راوی کو یا د نہیں رہا مطلب یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا سخت گناہ ہے۔
اگر اس کی سنگینی کا گزرنے والے کو ادراک ہو جائے تو وہ مدتوں کھڑا رہنے کو گزرنے سے بہترخیال کرے۔
(فتح الباري: 756/1) 2۔
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں
(مِنَ الإِثمِ) کے الفاظ بھی ہیں، لیکن دیگر معتبر کتب حدیث کی جملہ روایات اس اضافے کے بغیر ہی مروی ہیں، صرف مصنف ابن ابی شیبہ میں
(مِنَ الإِثمِ) کے الفاظ ہیں۔
یہ بھی کسی راوی کی تفسیر ہے، حدیث کے الفاظ نہیں۔
ممکن ہے کہ بخاری ؒ کے حاشیے میں یہ الفاظ درج ہوں، پھر کسی نسخہ لکھنے والے نے انھیں متن کا حصہ بنا دیا ہو، نیز روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنگین گناہ اس شخص کو ملے گا جسے اس کا علم ہو، پھر جان بوجھ کر اس کا مرتکب ہو اس کے علاوہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو نمازی کے آگے سے گزرے۔
لیکن اگر کوئی نمازی کے اگے کھڑا ہو جائے یا بیٹھ جائے یا سو جائے تو ظاہر الفاظ کا تقاضا ہے کہ مذکورہ وعید ان حضرات کے لیے نہیں ہوگی، ہاں اگر ہم امتناعی کی علت نمازی کی تشویش و قراردیا جائے تو پھر تمام صورتیں گزرنے والے کے معنی ہوں گی۔
(فتح الباري: 757/1) 3۔
علامہ تقی الدین ابن دقیق العید ؒ نے گزرنےوالے اور نمازی کے حالات کے متعلق کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کا خلاصہ ہدیہ قارئین ہے:
نمازی عام گزر گاہ سے ہٹ کر اپنے سامنے سترے کا اہتمام کر کے نماز پڑھتا ہے اور گزرنے والے کے لیے متبادل راستہ موجود ہے، لیکن وہ دانستہ طور پر نمازی کے آگے سے گزرتا ہے، اس صورت میں آگے سے گزرنے والا مجرم اور خطا کار ہے۔
نمازی عام گزر گاہ سترے کا اہتمام کے بغیر نماز شروع کردیتا ہے، گزرنے والے کے لیے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں اور کسی وجہ سے گزرنابھی ضروری ہے، وہ انتظار نہیں کر سکتا تو اس صورت میں تمام تر ذمے داری نمازی پر عائد ہوتی ہے گزرنے والا مجبور ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
عام گزرگاہ سترے کے بغیر نماز شروع کر دیتا ہے۔
متبادل راستہ بھی موجود ہے، لیکن گزرنے والا نمازی کے آگے سے گزرتا ہے تو جس طرح نمازی سترے کے بغیر نماز شروع کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہے، اسی طرح گزرنے والا بھی متبادل راستہ ہونے کے باوجود نمازی کے آگے سے گزرنے کی بنا پر مجرم ہے۔
نمازی نے عام راستے سے ہٹ کراور سترہ قائم کر کے نماز شروع کی، لیکن گزرنے والے کے لیے کوئی اور متبادل راستہ موجود نہیں، کیونکہ گزرگاہ پر بھی کوئی رکاوٹ کھڑی ہے تو ایسی صورت میں نہ نمازی گناہ گار ہے اور نہ گزرنے والا مجرم ہے، کیونکہ نمازی نے سترہ کر رکھا تھا اور گزرنے والے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں تھا جس بنا پر وہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر مجبور تھا۔
(فتح الباري: 757/1) لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا ہے کہ مطلق طور پر نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے، خواہ گزرنے والے کوکوئی متبادل راستہ ملے یا نہ ملے۔
وہ انتظار کرے تاآنکہ نمازی اپنی نماز سے فارغ ہو جائے۔
حضرت ابو سعید خدری ؒ والے واقعے سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 758/1)