عبیداللہ نے کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو اور ان (گھروں) کو قبریں نہ بناؤ۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو اور انہیں قبریں نہ بناؤ۔“
ایوب نے نافع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: گھروں میں (نفل) نمازیں پڑھوں اور انھیں قبریں نہ بناؤ۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”گھروں میں نماز پڑھو اور انھیں قبریں نہ ٹھہراؤ۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنی مسجد میں نماز (باجماعت) ادا کر لے تو اپنی نماز میں سے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ رکھے کیونکہ اللہ اس کے گھر میں اس کے نماز پڑھنے کی وجہ سے خیروبھلا ئی رکھے گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”جب تم میں سے کو ئی اپنی مسجد کی نماز پوری کر لے، تو اپنی نماز سے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ رکھے، کیونکہ اس کی اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے اللہ ا س کے گھر میں خیروبھلا ئی پیدا کرے گا۔“
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جا تا ہے اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد نہیں کیا جا تا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد نہیں کیا جا تا، زندہ اور مردہ کی سی ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا ؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا ؤ، شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے، جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔“
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عبد الله بن سعيد ، حدثنا سالم ابو النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن ثابت ، قال: احتجر رسول الله صلى الله عليه وسلم حجيرة بخصفة او حصير، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيها، قال: فتتبع إليه رجال وجاءوا يصلون بصلاته، قال: ثم جاءوا ليلة، فحضروا وابطا رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهم، قال: فلم يخرج إليهم، فرفعوا اصواتهم وحصبوا الباب، فخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما زال بكم صنيعكم، حتى ظننت انه سيكتب عليكم، فعليكم بالصلاة في بيوتكم، فإن خير صلاة المرء في بيته، إلا الصلاة المكتوبة ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَيْرَةً بِخَصَفَةٍ أَوْ حَصِيرٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيهَا، قَالَ: فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، قَالَ: ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً، فَحَضَرُوا وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ، قَالَ: فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا الْبَابَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ، إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ ".
عبد اللہ سعید نے کہا: عمر بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم ابو نضرنے ہمیں بسربن سعید سے حدیث بیان کی اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی کا ایک چھوٹا سا حجرہ بنوایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) باہر آکر اس میں نماز پڑھنے لگے لو گ اس (حجرے) تک آپ کے پیچھے پیچھے آئے اور آکر آپ کی اقتدامیں نماز پڑھنے لگے، پھر ایک اور رات لو گ آئے اور (حجرےکے) پاس آگئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس آنے میں تا خیر کر دی۔کہا: آپ ان کے پاس تشریف نہ لا ئےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنی آوازیں بلند کیں (تاکہ آپ آوازیں سن کر تشریف لے آئیں) اور دروازے پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں ان کی طرف تشریف لا ئے اور ان سے فرمایا: تم مسلسل یہ عمل کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ نماز تم پر لازم قراردے دی جا ئے گی، اس لیے تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی فرض نماز کے سوا وہی بہتر ہےجو گھر میں پڑھے۔"
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی کا ایک چھوٹا سا حجرہ بنوایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لائے، لو گوں نے اس تک آپصلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا اور آ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے، پھر ایک اور رات آئے اور جمع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس آنے میں تا خیر کر دی اور ان کے پاس تشریف نہ لائے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنی آوازیں بلند کیں، تاکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم آوازیں سن کر تشریف لے آئیں، اور دروازے پر چ کنکر مارے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں ان کی طرف گھر سےنکلے اور انہیں فرما یا: ”تم مسلسل یہ کام کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ نماز تم پر لازم قرار دے دی جا ئے گی، تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی وہی نماز بہتر ہےجو گھر میں پڑھے۔“
موسیٰ بن عقبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو نضرسے سنا انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے ایک حجرہ بنوایا اور آپ نے اس میں چند راتیں نماز پڑھی حتیٰ کہ آپ کے پاس لو گ جمع ہو گئے۔۔۔پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "اگر تم پر نماز فرض کر دی گئی تو تم (سب) اس کی پابندی نہیں کر سکو گے۔" (یہ حجرہ اعتکاف کے لیے تھا۔)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے ایک حجرہ بنایا اور اس میں چند راتیں نماز پڑھی، حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ جمع ہو گئے، پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرتم پر نماز فرض کر دی گئی تو تم سب اس کی پابندی نہیں کر سکو گے۔“
30. باب فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ:
30. باب: ہمیشگی والے عمل کی فضیلت قیام اللیل وغیرہ میں اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم۔
Chapter: The virtue of a deed that is done persistently, whether it be Qiyam al-Lail or anything else. The command to be moderate in worship, which means adopting what one can persist in. The command to the one who gets tired or weary when praying to stop until that feeling passes
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب يعني الثقفي ، حدثنا عبيد الله ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، انها قالت: كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم حصير، وكان يحجره من الليل فيصلي فيه، فجعل الناس يصلون بصلاته ويبسطه بالنهار، فثابوا ذات ليلة، فقال " يا ايها الناس، عليكم من الاعمال ما تطيقون، فإن الله لا يمل حتى تملوا، وإن احب الاعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل "، وكان آل محمد صلى الله عليه وسلم، إذا عملوا عملا اثبتوه.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي الثَّقَفِيَّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصِيرٌ، وَكَانَ يُحَجِّرُهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُصَلِّي فِيهِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ وَيَبْسُطُهُ بِالنَّهَارِ، فَثَابُوا ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ مِنَ الأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ "، وَكَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا عَمِلُوا عَمَلًا أَثْبَتُوهُ.
سعید بن ابی نے ابو سلمہ (نم عبد الرحمان بن عوف) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی آپ رات کو اس سے حجرہ بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے تو لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنی شروع کر دی آپ دن کے وقت اسے بچھا لیتے تھے ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: "لوگو!اتنے اعمال کی پابندی کرو جتنے اعمال کی تم میں طاقت ہے کیونکہ (اس وقت تک) اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے رضی اللہ عنہ نہیں اکتاتا حتیٰ کہ تم خود اکتا جاؤ اور یقیناًاللہ کے نزدیک زیادہ محبوب عمل وہی ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جا ئے چاہے وہ کمہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جب کوئی عمل کرتے تو اسے ہمیشہ بر قرار رکھتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کو رات کو حجرہ بنا کر اس میں نماز پڑھتے تو صحابہ کرام بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم دن کو اس کو بچھا لیتے تھے، ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: ”اے لوگو! اتنے اعمال کی پابندی کرو، جتنے کی ع تمہیں قدرت حاصل ہے کیونکہ اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا۔ تم ہی (عمل سے) اکتاؤ گے، اور اللہ کے نزدیک محبوب عمل وہ ہے جس پردوام اور ہمیشگی کی جا ئے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔“ اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ یہی تھا جب وہ کوئی عمل کرتے اس کو ہمیشہ بر قرار رکھتے۔
سعد بن ابرا ہیم سے روایت ہے کہ انھوں نے ابو سلمہ سے سنا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ تعا لیٰ کو کو ن سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: "جسے ہمیشہ کیا جا ئے اگر چہ کم ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ کم ہو۔“
وحدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال زهير: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: سالت ام المؤمنين عائشة ، قال: قلت: يا ام المؤمنين، كيف كان عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ هل كان يخص شيئا من الايام؟ قالت: لا، " كان عمله ديمة "، وايكم يستطيع ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستطيع.وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، كَيْفَ كَانَ عَمَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ هَلْ كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الأَيَّامِ؟ قَالَتْ: لَا، " كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً "، وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطِيعُ.
علقمہ سے روایت ہے کہا میں نے ام المومنین!عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا اور کہا ام المومنین!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کیفیت کیا تھی؟کیا آپ (کسی خاص عمل کے لیے) کچھ ایام مخصوص فر ما لیتے تھے؟انھوں نے فرمایا: نہیں آپ کا عمل دائمی ہو تا تھا اور تم میں سے کو ن اس قدر استطاعت رکھتا ہے جتنی استطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی؟
حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ام المومنین!عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ اے مومنوں کی امی جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیسے ہوتا تھا؟ کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم (عمل کے لیے) کچھ ایام مخصوص فرماتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا نہیں! آپصلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دائمی ہو تا تھا، اور تم میں سے کس میں اس قدر استطاعت ہے جس قدر استطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھی؟