۔ شعبہ نے عدی سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے، آپ نے عشاء کی پڑھائی تو اس کی ایک رکعت میں ﴿والتین والزیتون﴾ پڑھی۔
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی تو اس کی ایک رکعت میں ﴿والتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ پڑھی۔
(شعبہ کے بجائے) یحییٰ بن سعید نے عدی بن ثابت سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو آپ نے ﴿والتین والزیتون﴾ کی قراءت کی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿والتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ کی قرأت کی۔
(شعبہ اور یحییٰ کے بجائے) مسعر نے عدی بن ثابت سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء کی نماز میں ﴿والتین والزیتون﴾ کی قراءت کرتے ہوئے سنا، میں نے کسی کو نہیں سنا جس کی آواز آپ سے زیادہ اچھی ہو۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشاء کی نماز میں ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ سنی، میں نے کسی کو آپصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھی آواز میں پڑھتے نہیں سنا۔
حدثني محمد بن عباد ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن جابر ، قال: كان معاذ، يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ياتي فيؤم قومه، فصلى ليلة مع النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم اتى قومه فامهم، فافتتح بسورة البقرة، فانحرف رجل، فسلم، ثم صلى وحده وانصرف، فقالوا له: انافقت يا فلان؟ قال: لا والله، ولآتين رسول الله صلى الله عليه وسلم فلاخبرنه، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا اصحاب نواضح، نعمل بالنهار، وإن معاذا، صلى معك العشاء، ثم اتى فافتتح بسورة البقرة، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على معاذ، فقال: يا معاذ، افتان انت، اقرا بكذا، واقرا بكذا، قال سفيان : فقلت لعمرو: إن ابا الزبير حدثنا، عن جابر ، انه قال: اقرا: والشمس وضحاها، والضحى، والليل إذا يغشى، وسبح اسم ربك الاعلى، فقال عمرو: نحو هذا ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: كَانَ مُعَاذٌ، يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَأْتِي فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ، فَصَلَّى لَيْلَةً مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَأَمَّهُمْ، فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَانْحَرَفَ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ، فَقَالُوا لَهُ: أَنَافَقْتَ يَا فُلَانُ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، وَلَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأُخْبِرَنَّهُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَصْحَابُ نَوَاضِحَ، نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ، وَإِنَّ مُعَاذًا، صَلَّى مَعَكَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ أَتَى فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَاذٍ، فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، اقْرَأْ بِكَذَا، وَاقْرَأْ بِكَذَا، قَالَ سُفْيَانُ : فَقُلْتُ لِعَمْرٍو: إِنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: اقْرَأْ: وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، فَقَالَ عَمْرٌو: نَحْوَ هَذَا ".
سفیان نے عمرو سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، پھر آ کر اپنے قبیلے کی (مسجد میں) امامت کراتے، ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر اپنی قوم کے پاس آئے، ان کی امامت اور (سورۃ فاتحہ کے بعد) سورۃ بقرہ پڑھنی شروع کر دی۔ ایک شخص الگ ہو گیا، (نماز سے، سلام پھیرا، پھر اکیلے نماز پڑھی اور چلا گیا تو لوگوں نے اس سے کہا: اے فلاں! کیا تو منافق ہو گیا ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! نہیں، میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس معاملے سے آگاہ کروں گا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم ان اونٹوں والے ہیں جو پانی ڈھوتے ہیں، دن بھر کام کرتے ہیں اور معاذ رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز آپ کے ساتھ پڑھی، پھر آ کر سورۃ بقرہ کے ساتھ نماز شروع کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ”اے معاذ! کیا لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے والے ہو؟ فلاں سورت پڑھا کرو اور فلاں سورت پڑھا کرو۔“ سفیان نے کہا: میں نے عمرو سے کہا: ابو زبیر نے ہمیں جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ﴿والشمس وضحاہا﴾ ﴿والضحی﴾، ﴿والیل إذا یغشی﴾ اور ﴿سبح اسم ربک الأعلی﴾ پڑھا کرو۔ اور عمرو نے کہا: اس جیسی (سورتیں پڑھا کرو
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (عشاء) کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر آ کر اپنے قبیلہ کی مسجد میں امامت کرواتے تھے، ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کی امامت کی اور (سورہٴ فاتحہ کے بعد) سورہٴ بقرہ پڑھنی شروع کر دی، ایک شخص نماز سے سلام پھیر کر الگ ہو گیا، پھر اکیلا نماز پڑھ کر چلا گیا، (اس کے بلا جماعت، اکیلے نماز پڑھنے کی بنا پر) لوگوں نے اس سے پوچھا، اے فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ اس نے جواب دیا، اللہ کی قسم! نہیں،اور میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ سے آگاہ کروں گا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا کام اونٹوں کے ذریعے پانی سینچنا ہے، ہم لوگ دن بھر محنت مشقت (کام کاج) کرتے ہیں، (اور گزشتہ رات) معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے عشاء کی نماز آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ پھر (اپنے قبیلہ کی مسجد میں) آ کر سورہٴ بقرہ شروع کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) حضرت معاذ رضی اللہ تعال عنہ کی طرف رخ فرمایا، اور ارشاد فرمایا: اے معاذ! کیا لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ یہ یہ سورة پڑھا کرو۔ سفیان نے کہا، میں نے عمرو سے پوچھا، ابوزبیر نے ہمیں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے سنایا، کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا﴾ ﴿وَالضُّحَى﴾ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی﴾ پڑھا کرو، عمرو نے کہا، ایسے ہی ہے۔
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، قال: ح وحدثنا ابن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، انه قال: صلى معاذ بن جبل الانصاري لاصحابه العشاء، فطول عليهم، فانصرف رجل منا، فصلى، فاخبر معاذ عنه، فقال: إنه منافق، فلما بلغ ذلك الرجل، دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره ما قال معاذ، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: اتريد ان تكون فتانا يا معاذ؟ إذا اممت الناس، فاقرا ب الشمس وضحاها، وسبح اسم ربك الاعلى، واقرا: باسم ربك، والليل إذا يغشى ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ: ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الأَنْصَارِيُّ لِأَصْحَابِهِ الْعِشَاءَ، فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ، فَانْصَرَفَ رَجُلٌ مِنَّا، فَصَلَّى، فَأُخْبِرَ مُعَاذٌ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ مُعَاذٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ؟ إِذَا أَمَمْتَ النَّاسَ، فَاقْرَأْ بِ الشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَاقْرَأْ: بِاسْمِ رَبِّكَ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى ".
ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور اس میں طویل قراءت کی۔ ہم میں سے ایک آدمی نکلا اور الگ نماز پڑھ لی۔ معاذ رضی اللہ عنہ کو اس کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: وہ منافق ہے۔ جب اس آدمی تک یہ بات پہنچی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پ کو بتایا کہ معاذ نے کیا کہا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے معاذ! کیا تم فتنہ ڈالنے والے بننا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کی امامت کراؤ تو ﴿والشمس وضحہا﴾، ﴿سبح اسم ربک الأعلی﴾، ﴿اقرأ باسم ربک الذی خلق﴾ اور ﴿والیل إذا یغشی﴾ پڑھا کرو۔“
حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل انصاریٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور اس میں طویل قرأت کی ہم میں سے ایک آدمی نے سلام پھیر کر الگ نماز پڑھ لی، معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا وہ منافق ہے، جب اس آدمی تک یہ بات پہنچی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی بات بتائی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تم ابتلاء میں ڈالنے والے بننا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کی امامت کراؤ تو ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا﴾ ﴿وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى﴾ پڑھا کرو۔ (ان آیات سے پوری سورہٴ پڑھنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)۔
منصور نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم میں آ کر یہی نماز ان کو پڑھاتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم میں آ کر یہی نماز ان کو پڑھاتے تھے۔
(منصور کے بجائے) ایوب نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم کی مسجد میں آ کر ان کو نماز پڑھاتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم کی مسجد میں آکر ان کو نماز پڑھاتے تھے۔
وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا هشيم ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن قيس ، عن ابي مسعود الانصاري ، قال: " جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني لاتاخر عن صلاة الصبح من اجل فلان، مما يطيل بنا، فما رايت النبي صلى الله عليه وسلم غضب في موعظة قط، اشد مما غضب يومئذ، فقال: يا ايها الناس، إن منكم منفرين، فايكم ام الناس فليوجز، فإن من ورائه الكبير، والضعيف، وذا الحاجة "،وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ، مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ فِي مَوْعِظَةٍ قَطُّ، أَشَدَّ مِمَّا غَضِبَ يَوْمَئِذٍ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيُوجِزْ، فَإِنَّ مِنْ وَرَائِهِ الْكَبِيرَ، وَالضَّعِيفَ، وَذَا الْحَاجَةِ "،
ہشیم نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس سے اور انۂں نے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: بے شک میں فلاں آدمی کی وجہ سے صبح کی نماز سے پیچھے رہتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ پند ونصیحت کرتے وقت، آپ کبھی اس دن سے زیادہ غضب ناک ہوئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”لوگو! تم میں سے بعض (دوسروں کو نماز سے) متنفر کرنے والے ہیں۔ تم میں سے جو بھی لوگوں کی امامت کرائے وہ اختصار سے کام لے کیونکہ اس کے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں۔“
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا، میں فلاں آدمی کی وجہ سے صبح کی نماز سے پیچھے رہتا ہوں، کیونکہ وہ ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پند و نصیحت کرتے وقت اس دن سے زیادہ غضبناک کبھی نہیں دیکھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! تم میں سے کچھ لوگوں کو (دین، نماز) سے متنفر کرنے والے ہیں، تم میں سے جو بھی لوگوں کا امام بنے وہ تخفیف کرے کیونکہ اس کے پیچھے، بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں۔“
اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی فرد لوگوں کی امامت کرائے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان (نمازیوں) میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے (ان کا امام بنے) تو وہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ نمازیوں میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہوتے ہیں، اور جب اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔“