وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد ، عن حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يغير إذا طلع الفجر، وكان يستمع الاذان، فإن سمع اذانا، امسك، وإلا اغار، فسمع رجلا، يقول: الله اكبر، الله اكبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: على الفطرة، ثم قال: اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خرجت من النار فنظروا، فإذا هو راعي معزى ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا، أَمْسَكَ، وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى الْفِطْرَةِ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ فَنَظَرُوا، فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دشمن پر) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے، (ایسا ہوا کہ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: اللہ أکبر اللہ أکبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فطرت (اسلام) پر ہے۔“ پھر اس نے کہا: أشہد أن لا إلہ إلا اللہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو آگ سے نکل گیا۔“ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دشمن پر) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، آگر آپصلی اللہ علیہ وسلم اذان سن لیتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے، ورنہ حملہ کردیتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا، اللہ اکبر، اللہ اکبر تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فطرت اسلام پر ہے۔ پھر اس نے کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو آگ سے آزاد ہوگیا“، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس شخص کو دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
7. باب: اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنا چاہیے جس طرح مؤذن نے کہا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کا استحباب۔
Chapter: It Is Recommended For The One Who Hears The Mu'adhdhin To Repeat His Words, Then To Send Salat Upon The Prophet (saws) And Ask Allah To Grant Him Al-Wasilah
۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا، چنانچہ جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی۔“
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم مؤذن سے اذان سنو تو مؤذن کے کلمات کو تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے بلند مقام کی درخواست کرو، کیونکہ وہ جنت کا ایک ایسا بلند مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ہی مل سکے گا، اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا تو جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی، اس کو میری سفارش حاصل ہو گی۔“
حدثني إسحاق بن منصور اخبرنا ابو جعفر محمد بن جهضم الثقفي ، حدثنا إسماعيل بن جعفر ، عن عمارة بن غزية ، عن خبيب بن عبد الرحمن بن إساف ، عن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، عن ابيه ، عن جده عمر بن الخطاب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قال المؤذن: الله اكبر، الله اكبر، فقال احدكم: الله اكبر، الله اكبر، ثم قال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال: اشهد ان لا إله إلا الله، ثم قال: اشهد ان محمدا رسول الله، قال: اشهد ان محمدا رسول الله، ثم قال: حي على الصلاة، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال: حي على الفلاح، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال: الله اكبر، الله اكبر، قال: الله اكبر، الله اكبر، ثم قال: لا إله إلا الله، قال: لا إله إلا الله، من قلبه دخل الجنة ".حدثني إسحاق بن منصور أخبرنا أبو جعفر محمد بن جَهْضَمٍ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسَافٍ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ أَحَدُكُمُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤذن اللہ أکبر، اللہ أکبر کہے تو تم میں سے (ہر) ایک اللہ أکبر اللہ أکبر کہے، پھر وہ (مؤذن) کہے أشہد أن لا إلا اللہ تو وہ بھی کہے: أشہد أن لا إلہ اللہ پھر (مؤذن) أشہد أن محمد رسول اللہ کہے تو وہ بھی أشہد أن محمدا رسول اللہ کہے، پھر وہ (مؤذن) حی علی الصلاۃ کہے تو وہ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کہے، پھر مؤذن حی علی الفلاح کہے، تو وہ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کہے، پھر (مؤذن) اللہ أکبر اللہ أکبر کہے، پھر (مؤذن) لا إلہ إلا اللہ کہے تو وہ بھی اپنے دل سے لا إلہ إلا اللہ کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے تو تم میں سے کوئی ایک اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، كہے، پھر مؤذن أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے تو وہ بھی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے، پھر مؤذن أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے تو وہ بھی أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے، پھر وہ مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، کہے تو وہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، کہے، پھر مؤذن حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، کہے، تو وہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، کہے، پھر مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے، تو وہ بھی اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے، پھر مؤذن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے تو وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے اور یہ کہنا دل سے ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
۔ محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید کی دو الگ الگ سندوں سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔“ وأن محمدا عبدہ ورسولہ ”اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ رضیت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دینا ” میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔“ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا: جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: وأنا أشہد اور قتیبہ نے وأنا کا لفظ بیان نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت سنائی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مؤذن کی اذان سننے کے وقت کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، میں گواہی دیتا ہوں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، میں اللہ کو رب مان کر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر اور اسلام کو دستور زندگی مان کر راضی اور مطمئن ہوں۔ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا، جس نے مؤذن سے اذان سننے وقت کہا: وأنا أشھد، میں بھی شہادت دیتا ہوں، اور قتیبہ نے سامع کے لیے وأنا کا لفظ بیان نہیں کیا۔
عبدہ نے طلحہ بن یحییٰ (بن طلحہ بن عبید اللہ) سے اور انہوں نے اپنے چچا (عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس مؤذن انہیں نماز کے لیے بلانے آیا۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: قیامت کے دن مؤذن، لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔“
طلحہ بن یحییٰ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس مؤذن آیا اور ان کو نماز کے لیے بلایا تو معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب لوگوں سے لمبی ہوں گی۔“
سفیان نے طلحہ بن یحییٰ سے اور انہوں نے (اپنے چچا) عیسیٰ بن طلحہ سے روایت کی، کہا: میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: .......... (آگے) سابقہ روایت کی مانند ہے۔
امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
۔ جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابو سفیان (طلحہ بن نافع) سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بلاشبہ شیطان جب نماز کی پکار (اذان) سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔“ سلیمان (اعمش) نے کہا: میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع) سے روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ مدینہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: شیطان جب نماز کے لیے اذان سنتا ہے تو مقام روحاء تک بھاگ جاتا ہے، سلیمان (اعمش) کہتے ہیں میں نے اپنے استاد سے روحاء کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے بتایا یہ مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلہ پر ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم واللفظ لقتيبة، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الشيطان، إذا سمع النداء بالصلاة، احال له ضراط، حتى لا يسمع صوته، فإذا سكت، رجع فوسوس، فإذا سمع الإقامة، ذهب حتى لا يسمع صوته، فإذا سكت رجع فوسوس ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ، إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ، أَحَالَ لَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لَا يَسْمَعَ صَوْتَهُ، فَإِذَا سَكَتَ، رَجَعَ فَوَسْوَسَ، فَإِذَا سَمِعَ الإِقَامَةَ، ذَهَبَ حَتَّى لَا يَسْمَعَ صَوْتَهُ، فَإِذَا سَكَتَ رَجَعَ فَوَسْوَسَ ".
۔ اعمش نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان جب نماز کے لیے پکار (کی آواز) سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ مؤذن کی آواز نہ سن سکے، پھر جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ تا ہے اور (نمازیوں کے دلوں میں) وسوسہ پیدا ےکرتا ہے، پھر جب اقامت سنتا ہے تو چلا جاتا ہے تاکہ اس کی آواز نہ سنے، پھر جب وہ خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آتا ہے اور (لوگوں کے دلوں میں) وسوسہ ڈالتا ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان جب نماز کے لیے پکار سنتا ہے تو زور سے ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے، تاکہ مؤذن کی آواز نہ سنائی دے، جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور (نمازیوں کے دلوں میں) وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ تو جب تکبیر سنتا ہے تو پھر بھاگتا ہے تاکہ اس کی آواز سنائی نہ دے، جب وہ خاموش ہو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔“