حدثنا قتيبة بن سعيد ، واحمد بن عبدة الضبي ، قالا: حدثنا عبد العزيز وهو الدراوردي ، عن زيد بن اسلم ، عن حمران مولى عثمان، قال: " اتيت عثمان بن عفان ، بوضوء فتوضا، ثم قال: إن ناسا يتحدثون، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم احاديث لا ادري ما هي، إلا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، توضا مثل وضوئي هذا، ثم قال: من توضا هكذا، غفر له ما تقدم من ذنبه، وكانت صلاته، ومشيه إلى المسجد نافلة "، وفي رواية ابن عبدة: اتيت عثمان فتوضا.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: " أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَتَحَدَّثُونَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، إِلَّا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ هَكَذَا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَكَانَتْ صَلَاتُهُ، وَمَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ نَافِلَةً "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبْدَةَ: أَتَيْتُ عُثْمَانَ فَتَوَضَّأَ.
ابن عبدہ کی روایت میں ہے: میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے وضو کیا۔ قتیبہ بن سعید اور احمد بن عبدہ ضبی نے کہا: ہمیں عبد العزیز دراوردی نے زید بن اسلم سےحدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حمران سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس وضو کا پانی لایا تو انہوں نے وضو کیا، پھر کہا: کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے ہیں جن کی حقیقت میں نہیں جانتامگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طریقے سے وضو کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف جانازائد (ثواب کا باعث) ہو گا۔“
حضرت عثمان ؓ کےمولیٰ حمران سے روایت سنائی: کہ میں عثمان بن عفان ؓ کے پاس پانی لایا، تو انھوں نے وضو کیا، پھر کہا: کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بیان کرتے ہیں، جن کی حقیقت کو میں نہیں جانتا، مگر میں نے رسول اللہ کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے وضوء کی طرح وضوء کیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے، اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف جانا نفل (زائد ثواب کا باعث) ہو گا۔“ ابنِ عبدہ کی روایت میں ہے: میں عثمان ؓکے پاس آیا، تو انھوں نے وضو کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9791)»
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: (اس حدیث کے الفاظ قتیبہ اور ابوبکر کےہیں) ہمیں وکیع نے سفیان کے حوالے سے ابو نضر سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو انس سے روایت کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے المقاعد کے پاس وضو کیا، کیا کہنے لگے: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو (کر کے) نہ دکھاؤں؟ پھر ہر عضو کو تین تین بار دھویا۔ قتیبہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: سفیان نے کہا: ابو نضر نے ابوانس سے روایت بیان کرتے ہوئے کہا: ان (عثمان رضی اللہ عنہ) کے پاس رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی لوگ موجود تھے۔
ابو انس بیان کرتے ہیں، کہ حضرت عثمان ؓنے مقاعد (بیٹھنے کی جگہ) کے پاس وضو کرنے کا ارادہ کیا، تو کہا: ”کیا میں تمھیں رسول اللہ کا وضوء نہ بتاؤں؟“ پھر ہر عضو کو تین تین بار دھویا۔ اور قتیبہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے: عثمان ؓ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی ساتھی موجود تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم 9835)»
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن وكيع ، قال ابو كريب، حدثنا وكيع، عن مسعر ، عن جامع بن شداد ابي صخرة ، قال: سمعت حمران بن ابان ، قال: كنت اضع لعثمان طهوره فما اتى عليه يوم، إلا وهو يفيض عليه نطفة، وقال عثمان حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، عند انصرافنا من صلاتنا هذه، قال مسعر: اراها العصر، فقال: ما ادري احدثكم بشيء، او اسكت، فقلنا: يا رسول الله، إن كان خيرا فحدثنا، وإن كان غير ذلك، فالله ورسوله اعلم، قال: " ما من مسلم يتطهر، فيتم الطهور الذي كتب الله عليه، فيصلي هذه الصلوات الخمس، إلا كانت كفارات لما بينها ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ ، قَالَ: كُنْتُ أَضَعُ لِعُثْمَانَ طَهُورَهُ فَمَا أَتَى عَلَيْهِ يَوْمٌ، إِلَّا وَهُوَ يُفِيضُ عَلَيْهِ نُطْفَةً، وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عِنْدَ انْصِرَافِنَا مِنْ صَلَاتِنَا هَذِهِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهَا الْعَصْرَ، فَقَالَ: مَا أَدْرِي أُحَدِّثُكُمْ بِشَيْءٍ، أَوْ أَسْكُتُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ خَيْرًا فَحَدِّثْنَا، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ، فَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَطَهَّرُ، فَيُتِمُّ الطُّهُورَ الَّذِي كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَيُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَاتٍ لِمَا بَيْنَهَا ".
مسعر نےابو صخرہ جامع بن شداد سے روایت کی، انہو ں نے کہا: میں نےحمران بن ابان سے سنا، انہوں نےکہا: میں عثمان رضی اللہ عنہ کے غسل اور وضو کے لیے پانی رکھا کرتا تھا اور کوئی دن ایسا نہ آتا کہ وہ تھوڑا سا (پانی) اپنے اوپر نہ بہا لیتے (ہلکا سا غسل نہ کر لیتے، ایک دن) عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز سے (مسعر کا قول ہے: میرا خیال ہے کہ عصر کی نماز مراد ہے) سلام پھیرنے کے بعد ہم سے گفتگو فرمائی، آپ نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ ایک بات تم سے کہہ دوں یا خاموش رہوں؟“ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!اگر بھلائی کی بات ہے تو ہمیں بتا دیجیے، اگر کچھ اور ہے تو اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی مسلمان وضو کرتا ہے اور جو وضو اللہ نے اس کے لیے فرض قرار دیا ہے اس کو مکمل طریقے سے کرتا ہے پھر یہ پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو یقیناً یہ نمازیں ان گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی جو ان نمازوں کے درمیان کے اوقات میں سرزد ہوئے۔“
حمران بن ابان بیان کرتے ہیں: میں عثمان ؓ کے وضو کے لیے پانی رکھا کرتا تھا، وہ ہر دن کچھ پانی سے غسل فرماتے تھے۔ عثمان ؓ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس نماز سے (مسعر نے کہا: میرا خیال ہے عصر مراد ہے) سلام پھیرنے کے بعد کہا: ”میں نہیں جانتا تم سے کچھ بیان کروں یا چپ رہوں؟“ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر بہتری و بھلائی کی بات ہے، تو ہمیں بتا دیجیے! اور اگر کچھ اور ہے، تو اللہ اور اس کا رسول ؐہی بہتر جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان وضو کرتا ہے اور جو وضوء اللہ نے اس کے لیے فرض قرار دیا ہے، اس کو پوری طرح (مکمل طور پر)کرتا ہے، پھر یہ پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے، تو یہ نمازیں ان گناہوں کے لیے کفارہ بن جائیں گی جو ان نمازوں کے درمیان سرزد ہوئے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبي)) 91/1 في الطهارة، باب: ثواب من توضا كما أمر وابن ماجه في ((سننه)) في الطهارة وسننها، باب: ما جاء في الوضوء علی ما امر الله تعالی برقم (459) انظر ((التحفة)) برقم (9789)»
عبید اللہ بن معاذ نے اپنےوالد سے اور محمد بن مثنیٰ اورابن بشار نے محمد بن جعفر (غندر) سےروایت کی، ان دونوں (معاذ بن اور ابن جعفر) نے کہا: ہمیں شعبہ نے جامع ابن شداد سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ میں نے حمران بن ابان سے سنا، وہ بشر کے دور امارات میں اس مسجد میں ابو بردہ رضی اللہ عنہ کو بتا رہے تھے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے اس طرح وضو کومکمل کیا جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے تو (اس کی) فرض نمازیں ان گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گی جو ان کے درمیان سرزد ہو ئے۔“ یہ ابن معاذ کی روایت ہے، غندر کی حدیث میں بشر کے دور حکومت اور فرض نمازوں کا ذکر نہیں ہے۔ [مخرمہ کےوالد بکیر (بن عبد اللہ) نے حمران (مولیٰ عثمان) سے روایت کی کہ ایک دن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بہت اچھی طرح وضو کیا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا، آپ نے بہت اچھی طرح وضوکیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، پھر مسجدکی طرف نکلا، نماز ہی نے اسے (جانے کے لیے) کھڑا کیا تو اس کے گزرے ہوئے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“
جامع بن شداد سے روایت ہے، کہ میں نےحمران بن ابان سے اس مسجد میں ابو بردہ کو بشر کے دورِ حکومت میں بتاتے ہوئے سنا، کہ عثمان بن عفان ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وضو کو اس طرح پورا کیا جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے، تو فرض نمازیں ان گناہوں کے لیے کفارہ بنیں گی جو ان کے درمیان ہوئے۔“ یہ ابنِ معاذ کی روایت ہے، غندر کی حدیث میں بشر کی امارت اور فرض نمازوں کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (545)»
حدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، قال: واخبرني مخرمة بن بكير ، عن ابيه ، عن حمران مولى عثمان، قال: " توضا عثمان بن عفان يوما، وضوءا حسنا، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، توضا فاحسن الوضوء، ثم قال: " من توضا هكذا، ثم خرج إلى المسجد، لا ينهزه إلا الصلاة، غفر له ما خلا من ذنبه ".حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: " تَوَضَّأَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يَوْمًا، وُضُوءًا حَسَنًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ هَكَذَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ، لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، غُفِرَ لَهُ مَا خَلَا مِنْ ذَنْبِهِ ".
مخرمہ کےوالد بکیر (بن عبد اللہ) نے حمران (مولیٰ عثمان) سے روایت کی کہ ایک دن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بہت اچھی طرح وضو کیا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا، آپ نے بہت اچھی طرح وضوکیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، پھر مسجدکی طرف نکلا، نماز ہی نے اسے (جانے کے لیے) کھڑا کیا تو اس کے گزرے ہوئے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“
حمران (مولیٰ عثمان) سے روایت ہے، کہ ایک دن حضرت عثمان بن عفانؓ نے بہت اچھی طرح وضو کیا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے بہت اچھی طرح وضو کیا پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، پھر مسجد کو محض نماز کے ارادے سے گیا، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم 9787)»
معاذ بن عبد الرحمن نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ حمران سے اور انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ میں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ” جس نے نماز کے لیے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کے لیے چل کرگیا اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔“
حمران مولیٰ عثمان بن عفان، حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے نماز کے لیے کامل وضوکیا، پھر فرض نماز کے لیے چل کر گیا اور لوگوں کے ساتھ یا باجماعت نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: قول الله تعالی ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ، إِنَّ الشَّيْطَانَ.. الآية ﴾ برقم (6433) والنسائي في ((المجتبى)) 1/ 111- 112 في الامامة، باب: حد ادراك الجماعة - انظر ((التحفة)) برقم (9797)»
5. باب: بیان ہے کہ پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں جو ان کے درمیان میں کیے جائیں اگر کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔
Chapter: The five daily prayers, from one Jumu`ah to the next, and from one Ramadan to the next, are an expiation for whatever (sins) come in between, so long as one avoids major sins
علاء نے اپنے والد عبد الرحمن بن یعقوب سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پانچوں نمازیں اور (ہر) جمعہ (دوسرے) جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ (ان کو مٹانے والے) ہیں جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیاجائے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہیں، جب تک کبائر کا ارتکاب نہیں کیا جاتا۔“
محمد (بن سیرین) نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہو ں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ” پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ (دوسرے) جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہوں کاکفارہ ہیں۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں، کہ آپ ؐنے فرمایا: ”پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14534)»
عمر بن اسحاق کےوالد اسحاق (بن عبد اللہ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”جب (انسان) کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ (دوسرے) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک، رمضان اگلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں جب کہ انسان کبیرہ گناہوں سے بچے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (1283)»
حدثني محمد بن حاتم بن ميمون ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا معاوية بن صالح ، عن ربيعة يعني ابن يزيد ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن عقبة بن عامر . ح وحدثني ابو عثمان ، عن جبير بن نفير ، عن عقبة بن عامر ، قال: كانت علينا رعاية الإبل، فجاءت نوبتي، فروحتها بعشي، فادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما يحدث الناس، فادركت من قوله: " ما من مسلم يتوضا، فيحسن وضوءه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجبت له الجنة "، قال: فقلت: ما اجود هذه؟ فإذا قائل بين يدي، يقول: التي قبلها اجود، فنظرت، فإذا عمر ، قال: إني قد رايتك جئت آنفا، قال: ما منكم من احد يتوضا، فيبلغ، او فيسبغ الوضوء، ثم يقول: اشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبد الله ورسوله، إلا فتحت له ابواب الجنة الثمانية، يدخل من ايها شاء،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ . ح وَحَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: كَانَتْ عَلَيْنَا رِعَايَةُ الإِبِلِ، فَجَاءَتْ نَوْبَتِي، فَرَوَّحْتُهَا بِعَشِيٍّ، فَأَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا يُحَدِّثُ النَّاسَ، فَأَدْرَكْتُ مِنْ قَوْلِهِ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ، إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ "، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا أَجْوَدَ هَذِهِ؟ فَإِذَا قَائِلٌ بَيْنَ يَدَيَّ، يَقُولُ: الَّتِي قَبْلَهَا أَجْوَدُ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا عُمَرُ ، قَالَ: إِنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ جِئْتَ آنِفًا، قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُبْلِغُ، أَوْ فَيُسْبِغُ الْوَضُوءَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ،
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم لوگوں کو اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی تو میں اونٹوں کو چرا کر شام کو ان کے رہنے کی جگہ لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو وعظ سنا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”: جو مسلمان اچھی طرح سے وضو کرے، پھر کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھے، اپنے دل کو اور منہ کو لگا کر (یعنی ظاہر اور باطناً متوجہ رہے، نہ دل میں اور کوئی دنیا کا خیال لائے، نہ منہ ادھر ادھر پھرائے) اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ میں نے کہا: کیا عمدہ بات فرمائی (جس کا ثواب اس قدر بڑا ہے اور محنت بہت کم ہے) ایک شخص میرے سامنے تھا، وہ بولا پہلی بات اس سے بھی عمدہ تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں تو ابھی آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی تم میں سے وضو کرے اچھی طرح پورا وضو، پھر کہے: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ» یعنی گواہی دیتا ہوں میں کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے ہیں اور بھیجے ہوئے ہیں۔ کھولے جائیں گے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے جس میں سے چاہے جائے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداود في ((سننه)) في الطهارة، باب: ما يقول الرجل اذا توضا (169) مطولا - وفي الصلاة، باب: كراهية الوسوسة وحديث النفس في الصلاة برقم (906) والنسائي في ((المجتبى)) 94/1-95 في الطهارة، باب: ثواب من احسن الوضوء ثم صلى ركعتين - انظر ((التحفه)) برقم (9914)»