عبد اللہ بن شہاب خولانی سےر وایت ہے، کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کا مہمان تھا، مجھے اپنے دونوں کپڑوں میں احتلام ہو گیا تو میں نے وہ دونوں پانی میں ڈبو دیے، مجھے حضرت عائشہ ؓ کی ایک کنیز نے دیکھ لیا اور انہیں بتا دیا تو انہوں نے میری طرف پیغام بھجوایا اور فرمایا: تو نے اپنے دونوں کپڑوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: میں نے نیند میں وہ دیکھا جو سونےوالا اپنی نیند میں دیکھتا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا تمہیں ان دونوں (کپڑوں) میں کچھ نظر آیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم کچھ دیکھتے تو اسے دھو ڈالتے۔ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے اس کو خشک حالت میں اپنے ناخن سے کھرچ رہی ہوں۔
عبداللہ بن شہاب خولانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہمان تھا، مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام آ گیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے پانی میں ڈبو دیئے، مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک کنیز (لونڈی) نے دیکھ لیا، اور انہیں بتا دیا، تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے میری طرف پیغام بھیجا، اور فرمایا: تجھے اپنے کپڑوں کے ساتھ یہ معاملہ کرنے پر کس بات نے ابھارا؟ میں نے جواب دیا، میں نے نیند میں وہ چیز دیکھی جو سونے والا اپنی نیند میں دیکھتا ہے، انہوں نے پوچھا، کیا تمہیں ان میں کچھ نظر آیا؟ میں نے کہا، نہیں انہوں نے فرمایا: اگر تم کچھ دیکھتے تو اسے دھو لیتے، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ میں اسے خشک ہونے کی صورت میں اپنے ناخن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھی۔
وکیع نے بیان کیا، ہمیں ہشام نے حدیث سنائی: اور یحییٰ بن سعید نے ہشام بن عروہ سے روایت کی، کہا: مجھے فاطمہ (بنت منذر) نے حدیث سنائی، انہوں نے (اپنی اور ہشام دونوں کی دادی) حضرت اسماء ؓ سے روایت کی کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور پوچھا: ہم میں سے کسی کو کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا ہے تو وہ اس کے بارے میں کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر اسے رگڑے، پھر اس پر پانی بہا دے (دھولے)، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور پوچھا ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا تو وہ اس کے بارے میں کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر اسے (رگڑے) پھر اس پر پانی بہا دے (دھو لے) پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“
یحییٰ بن عبد اللہ بن سالم، مالک بن انس اور عمرو بن حارث تینوں نے ہشام بن عروہ کی مذکورہ بالا سند کے ساتھ یہی روایت اسی طرح بیان کی جس طرح یحییٰ بن سعید نے بیان کی۔
امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدثنا ابو سعيد الاشج ، وابو كريب محمد بن العلاء ، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق : اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، قال: سمعت مجاهدا يحدث، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال: " اما إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان يمشي بالنميمة، واما الآخر فكان لا يستتر من بوله "، قال: فدعا بعسيب رطب، فشقه باثنين، ثم غرس على هذا واحدا، وعلى هذا واحدا، ثم قال: لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا ".حَدَّثَنا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ إِسْحَاق : أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ: " أَمَا إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ "، قَالَ: فَدَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ، ثُمَّ غَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا، وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا، ثُمَّ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا ".
وکیع نے بیان کیا، (کہا:) ہمیں اعمش نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے مجاہد کو طاؤس سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی غلطی کی بناپر عذاب نہیں ہو رہا (جس سے بچنا دشوار ہوتا۔) ان میں ایک تو چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ نے ایک تازہ کھجور کی چھڑی منگوائی اور اس کو دوحصوں میں چیر دیا، پھر ایک حصہ اس قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا اس (دوسری قبر) پر، پھر آپ نے فرمایا: ”امید ہے جب تک یہ دو ٹہنیاں سوکھیں گی نہیں، ان کا عذاب ہلکا رہے گا۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں پر گزر ہوا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور کسی ایسی چیز کی بنا پر عذاب نہیں ہو رہا جس سے بچنا دشوار ہو، رہا ان میں ایک تو وہ لگائی بجھائی کرتا تھا، اور دوسرا تو وہ اپنے بول سے نہیں بچتا تھا۔“ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تازہ کھجور کی چھڑی منگوائی اور اس کو چیر کر دو کر دیا، پھر ایک ایک قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا، دوسری قبر پر پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امید ہے جب تک یہ دو ٹہنیاں سوکھیں گی نہیں، ان کا عذاب ہلکا رہے گا۔“
عبدالواحدنے اسی سند سے سلیمان اعمش سے مذکورہ بالا حدیث روایت کی، سوائے اس کے کہ کہا: اور دوسرا پیشاب (اپنے کے بغیر) کی طرف سے (بچنے کا اہتمام نہیں عبدالواحد کرتا۔)
امام صاحب ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ دوسرا لَا یَسَتَنْزِہُ عَنِ البول أو مِنَ البَولِ، بول سے احتیاط اور پرہیز نہیں کرتا تھا۔ پہلی حدیث میں لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوله کا لفظ ہے۔