عبدالواحدنے اسی سند سے سلیمان اعمش سے مذکورہ بالا حدیث روایت کی، سوائے اس کے کہ کہا: اور دوسرا پیشاب (اپنے کے بغیر) کی طرف سے (بچنے کا اہتمام نہیں عبدالواحد کرتا۔)
امام صاحب ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ دوسرا لَا یَسَتَنْزِہُ عَنِ البول أو مِنَ البَولِ، بول سے احتیاط اور پرہیز نہیں کرتا تھا۔ پہلی حدیث میں لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوله کا لفظ ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 678
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ چغلی کھانا اور پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش نہ کرنا ایسا جرم ہے جو انسان کے لیے عذاب قبر کاباعث بنے گا اس لیے ہمیں پیشاب وغیرہ نجاست سے اپنے جسم اور کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کرنی چاہیے اور چغل خوری کی عادت سے باز رہنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ 2۔ کھجور کی ترشاخ کی تسبیح کو مدار تخفیف عذاب بنا کر بعض حضرات نے قبر کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کو مستحب قرار دیا ہے۔ اور یہ بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ اگر یہی بات ہے تو آپﷺ نے قرآن مجید کی تلاوت کیوں نہیں فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نے آپﷺ کے اس فعل سے یہ معنی کیوں نہیں اخذ کیا وہ اس عمل سے ہمیشہ کیوں محروم رہے۔ 3۔ بعض حضرات نے اس حدیث سے قبر پر پھولوں اور درخت کی شاخوں کے رکھنے کا جواز نکالا ہے اور دلیل میں حضرت بریدہ اسلمی کا فعل پیش کیا ہے سوال یہ ہے ”اگرتخفیف عذاب کا باعث شاخ تر کا تسبیح کہنا ہے تو اس کے چیرنے کی کیا ضرورت تھی، چیرنے کے باعث تو وہ جلد خشک ہو گئی۔ اس صورت میں تو آپﷺ کو ان قبروں پر کوئی پودا لگوانا چاہیے تھا۔ جو برسا برس تک ہرا بھرا رہتا، نیز آپﷺ کا یہ منشاء اور نقطہ نظر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کیوں نہیں سمجھا، اگر آپﷺ کا یہی مقصد تھا کہ تخفیف کا باعث تر شاخ کی تسبیح ہے تو وہ سب ایسا ہی کرتے اور ہر قبر پر شاخ نسب کرتے بلکہ درخت لگواتے اور اس کا اس دور میں عام رواج ہوتا، اس کو صرف حضرت بریدہ اسلمی ہی کیوں سمجھے اور انہوں نے بھی، اپنی قبر کے اندر کھجور کی دوشاخیں رکھنے کی وصیت قبر پر گاڑنے کی تلقین نہیں کی، آپﷺ نے تو ایک شاخ کے دو ٹکڑے کیے تھے، اور انہوں نے دو شاخیں رکھوائیں۔ ایک حنفی اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کھجور کے درخت میں برکت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو شجرہ طیبہ قرار دیا ہے۔ یہ تو پھر کھجور کے درخت کا خاصہ ہوا، پھولوں اور عام شاخوں میں یہ برکت کہاں سے آ گئی۔ آپﷺ نے تو کھجور کی شاخ کے ٹکڑے گاڑے تھے اور وہ بھی صرف دو قبروں پر، اگر یہ عمل عام مسلمانوں کے لیے تخفیف عذاب کا باعث ہے اور مقربین کے لیے ترقی درجات کا سبب تو آپﷺ نے دوسرے لوگوں کو اس سے کیوں محرو م رکھا۔ ان کی قبروں پر شاخ کا ٹکڑا نصب کرنے کی تلقین اور ہدایت نہیں فرمائی اور نہ ہی اس راز کو جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پا سکے، اصل حقیقت یہ ہےکہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے تخفیف عذاب کی دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو بتایا گیا کہ آپﷺ ایک ہری کے دو حصے کر کے ان قبروں پر ایک ایک نصب کر دیں، جب تک ان میں تری رہے گی اس وقت تک ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائےگی تو توجیہ کی صحت وتائید کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح مسلم کے آخر میں آنے والی ایک حدیث موجود ہے۔ جس میں اس قسم کا ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریافت کرنے پر آپﷺ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے (شرح نووی: 1/ 141) 4۔ قرآن مجید نے ایک اصول اور ضابطہ بیان فرمایا ہے۔ ﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ انسان کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جس کے لیے اس نے محنت وکوشش کی ہے اس ضابطہ سے استشار کے لیے حنفی اصول کے مطابق حدیث متواتر یا مشہور کی ضرورت ہے خبر واحد سے بھی یہ کام نہیں چلے گا، تو یہ کس قدر تعجب انگیز بات ہے کہ اس تر شاخ کو دلیل بنایا جاتا ہے یا ضعیف احادیث پیش کی جاتی ہیں۔