47 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ابو السوداء عمرو النهدي، عن ابن عبد خير، عن ابيه قال: رايت علي بن ابي طالب يمسح ظهور قدميه، ويقول: «لولا اني رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم مسح علي ظهورهما لظننت ان بطونهما احق» قال ابو بكر: إن كان علي الخفين فهو سنة، وإن كان علي غير الخفين فهو منسوخ47 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا أَبُو السَّوْدَاءِ عَمْرٌو النَّهْدِيُّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَمْسَحُ ظُهُورَ قَدَمَيْهِ، وَيَقُولُ: «لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَي ظُهُورِهِمَا لَظَنَنْتُ أَنَّ بُطُونَهُمَا أَحَقُّ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ كَانَ عَلَي الْخُفَّيْنِ فَهُوَ سُنَّةٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَي غَيْرِ الْخُفَّيْنِ فَهُوَ مَنْسُوخٌ
47- ابn عبدخیر اپنے والد کیا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پاؤں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا وہ یہ فرمارہے تھے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو، میرا یہ خیال ہے کہ ان کے نیچے والا حصہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس پر مسح کیا جائے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: اگر یہ واقعہ موزوں پر مسح کے مارے میں ہے، تو یہ سنت ہے اور اگر موزوں کے علاوہ ہے، تو پھر یہ حکم ”منسوخ“ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 95/1، عبداللہ ابنه فى الزوائد المسنده 114/1 وابوداود 162، 163، 164، أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 287/1-455، برقم: 346، 613، والدارقطني 199/1 برقم: 23، 24، وابن حزم فى المحلي: 111/2، والبيهقي: 292/1»
48 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان حدثني ابو إسحاق الهمداني، عن زيد بن يثيع قال: سالنا عليا «باي شيء بعثت في الحجة» قال: «بعثت باربع لا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يطوف بالبيت عريان، ولا يجتمع مسلم ومشرك في المسجد الحرام بعد عامهم هذا، ومن كان بينه وبين النبي صلي الله عليه وسلم عهد فعهده إلي مدته، ومن لم يكن له عهد فاجله اربعة اشهر» 48 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا «بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ فِي الْحِجَّةِ» قَالَ: «بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَجْتَمِعُ مُسْلِمٌ وَمُشْرِكٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَي مُدَّتِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ»
48- PA زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ PE بیان کرتے ہیں: ہم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، حج کے موقع پر آپ کو کون سی چیز کے ہمراہ بھیجا گیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: مجھے چار چیزوں کے ہمراہ بھیجا گیا تھا (یعنی یہ چار اعلان کرنے ہیں): ”➊ جنت میں صرف مؤمن داخل ہوگا، ➋ کوئی شخص برہنہ ہوکر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، ➌ مسلمان اور مشرکین اس سال کے بعد مسجد حرام میں اکھٹے نہیں ہوسکیں گے، ➍ اور جس شخص کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو، تو وہ معاہدہ اپنی متعین مدت تک ہوگا، اور جس شخص کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو اس کی مہلت چارہ ماہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 351/1 برقم: 452»
49 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عمرو بن دينار، اخبرني الحسن بن محمد بن علي انه سمع عبيد الله بن ابي رافع كاتب علي بن ابي طالب يقول: سمعت علي بن ابي طالب بعثني محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم انا، والزبير، والمقداد فقال: «انطلقوا حتي تاتوا روضة خاخ بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها» فانطلقنا تعادي بنا خيلنا حتي اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا رسول الله صلي الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلي ناس من المشركين ممن بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلي الله عليه وسلم فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «ما هذا يا حاطب؟» فقال حاطب: لا تعجل علي يا رسول الله فإني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسهم، وكان من كان معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهاليهم واموالهم بمكة فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم ان اتخذ عندهم يدا يحمون بها قرابتي وما فعلت ذا كفرا، ولا ارتدادا عن ديني، ولا رضا بالكفر بعد الإسلام فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «إنه قد صدقكم» فقال عمر: يا رسول الله دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله قد اطلع علي اهل بدر فقال: «اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم» قال عمرو بن دينار: ونزلت فيه ﴿ يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء﴾ الآية قال سفيان: فلا ادري اذلك في الحديث ام قولا من عمرو بن دينار49 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ بَعَثَنِي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا، وَالزُّبَيْرُ، وَالْمِقْدَادُ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّي تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ بِهَا ظَعِينَةٌ مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَعَادَي بِنَا خَيْلُنَا حَتَّي أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِينَ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَي نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟» فَقَالَ حَاطِبٌ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ مَنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهَالِيهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَا كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ» فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَي أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: «اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ» قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: وَنَزَلَتْ فِيهِ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ الْآيَةَ قَالَ سُفْيَانُ: فَلَا أَدْرِي أَذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ أَمْ قَوْلًا مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ
49- عبید اللہ بن ابورافع جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے وہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا: ”تم لوگ جاؤ اور ”خاخ“(جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) کے باغ پہنچو وہاں ایک عورت ہوگی، جس کے پاس ایک خط ہوگا تم لوگ وہ اس سے لے لینا۔“(سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم لوگ روانہ ہوئے۔ ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس باغ تک آئے، تو وہاں ایک عورت موجود تھی ہم نے کہا: تم خط نکالو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا تم خط نکالو ورنہ ہم تمہاری چادر اتار دیں گے تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے اس نکالا۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو اس میں تحریر تھا: یہ حاطب بن ابوبلتعہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے کچھ مشرکن کے لئے تھا جس میں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ کی طرف) کوچ کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: حاطب یہ کیا تھا؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے، میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کے ساتھ مل کر رہ رہا ہوں لیکن میں ان کا حصہ نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو دیگر مہاجرین ہیں، ان کی وہاں رشتے دارایں ہیں، جن کی وجہ سے ان کے گھر والے اور ان کی زمینیں محفوظ ہیں۔ میں یہ چاہتا تھا، کیونکہ میرا قریش کے ساتھ کوئی نسبی تعلق نہیں ہے، تو میں ان پر کوئی احسن کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، میں کفر کرتے ہوئے، یا اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے، یا اسلام قبول کرنے کے بعد کفر سے راضی ہوتے ہوئے، یہ عمل نہیں کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تمہارے ساتھ سج بات کہی ہے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے آپ اجازت دیججئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ”بدر“ میں شریک ہوا ہے تمہیں کیا پتہ؟ شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے کہا: تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں: اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ”اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔“ سفیان کہتے ہیں: مجھے یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ روایت کا حصہ ہے یا عمرو بن دینار کا قول ہے۔
50 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ليث بن ابي سليم، عن مجاهد، عن ابي معمر عبد الله بن سخبرة الازدي قال: كانوا عند علي بن ابي طالب فمرت بهم جنازة فقاموا لها فقال علي: ما هذا؟ فقالوا امر ابو موسي الاشعري فقال علي:" إنما قام رسول الله صلي الله عليه وسلم مرة واحدة ولم يعد50 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ الْأَزْدِيِّ قَالَ: كَانُوا عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَقَامُوا لَهَا فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا هَذَا؟ فَقَالُوا أَمَرَ أَبُو مُوسَي الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ عَلِيٌّ:" إِنَّمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً وَاحِدَةً وَلَمْ يَعُدْ
50- عبداللہ بن سخبرہ ازدی بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یہ کیا طریقہ ہے؟ لوگوں نے عرض کی: سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے ہیں، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اس (جنازے) کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ عمل نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسنادہ ضعیف، ولکن متن صحیح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“::231/1 برقم: 266، صحیح مسلم/الجنائز 25، 962، وابوداو: 3175، سنن النسائی/الجنائز 81 2001، سنن الترمذی/الجنائز 52 1044، سنن ابن ماجہ/ الجنائز 35 1544، تحفة الأشراف: 10276، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 11 33، مسنده احمد 1/82، 83، 131، 138 صحیح»
51 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن يحيي بن سعيد، عن واقد بن عمرو، عن نافع بن جبير، عن مسعود بن الحكم، عن علي انه قال: «إن رسول الله صلي الله عليه وسلم إنما قام مرة واحدة ثم لم يعد» قال ابو بكر الحميدي: وكان سفيان ربما حدثنا به عن ابن ابي نجيح، وليث، عن مجاهد، عن ابي معمر فإذا وقفناه عليه يدخل في حديث ابن ابي نجيح ابا معمر وكان لا يقول كل واحد منهما51 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَامَ مَرَّةً وَاحِدَةً ثُمَّ لَمْ يَعُدْ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ: وَكَانَ سُفْيَانُ رُبَّمَا حَدَّثَنَا بِهِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحِ، وَلَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ فَإِذَا وَقَفْنَاهُ عَلَيْهِ يُدْخِلُ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ أَبَا مَعْمَرٍ وَكَانَ لَا يَقُولُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا
51- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے لیے ایک مرتبہ کھڑے ہوئے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل نہیں کیا۔ امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سفیان بعض اوقت اس روایت کو ابونجیح اور لیث کے حوالے سے مجاہد کے حوالے سے ابومعمر سے نقل کرتے تھے، تو جب ہم نے اس پر مشتبہہ کیا، تو انہوں نے ابن ابونجیح کی روایت میں ابومعمر کو بھی شامل کردیا وہ لفظ ”حدثنا“ صرف اس وقت استعمال کرتے تھے، جب دونوں راویوں میں سے ہر ایک نے لفظ ”حدثنا“ استعمال کیا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسنادہ صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“::231/1 برقم: 266، صحیح مسلم/الجنائز 962، وابوداو: 3175، سنن النسائی/الجنائز 81 2001، سنن الترمذی/الجنائز 52 1044، سنن ابن ماجہ/ الجنائز 35 1544، تحفة الأشراف: 10276، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 11 33، مسنده احمد 1/82، 83، 131، 138 صحیح»
52 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عاصم بن كليب سمعه من ابن ابي موسي قال: سمعت عليا وبعث ابا موسي وامره بشيء من حاجته فقال له علي: قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم: «يا علي سل الله الهدي والسداد واعني بالهدي هداية الطريق، والسداد تسديدك للسهم» قال: «ونهاني رسول الله صلي الله عليه وسلم عن القسي والميثرة الحمراء وان البس خاتمي في هذه او في هذه واشار إلي السبابة والوسطي» قال الحميدي: وكان سفيان يحدث به عن عاصم بن كليب عن ابي بكر بن ابي موسي فقيل له: إنما يحدثونه عن ابي بردة فقال: اما الذي حفظت انا فعن ابي بكر فإن خالفوني فيه فاجعلوه عن ابن ابي موسي فكان سفيان بعد ذلك ربما قال: عن ابن ابي موسي وربما نسي فحدث به علي ما سمع عن ابي بكر52 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ سَمِعَهُ مِنِ ابْنِ أَبِي مُوسَي قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا وَبَعَثَ أَبَا مُوسَي وَأَمَرَهُ بِشَيْءٍ مِنْ حَاجَتِهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ سَلِ اللَّهَ الْهُدَي وَالسَّدَادَ وَأَعْنِي بِالْهُدَي هِدَايَةَ الطَّرِيقِ، وَالسَّدَادِ تَسْدِيدَكَ لِلسَّهْمِ» قَالَ: «وَنَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقَسِّيِّ وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ وَأَنْ أَلْبَسَ خَاتَمِي فِي هَذِهِ أَوْ فِي هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَي السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَي» قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: وَكَانَ سُفْيَانُ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَي فَقِيلَ لَهُ: إِنَّمَا يُحَدِّثُونَهُ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ فَقَالَ: أَمَّا الَّذِي حَفِظْتُ أَنَا فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ فَإِنْ خَالَفُونِي فِيهِ فَاجْعَلُوهُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَي فَكَانَ سُفْيَانُ بَعْدَ ذَلِكَ رُبَّمَا قَالَ: عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَي وَرُبَّمَا نَسِيَ فَحَدَّثَ بِهِ عَلَي مَا سَمِعَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ
52- سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سنا انہوں نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھجوایا اور انہیں اس کام کے بارے میں کسی چیز کی ہدایت کی۔ سیدنا علیض نے ان سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمایا تھا: اے علی (رضی اللہ عنہ)! تم اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور سیدھے رہنے کا سوال کرنا۔ ہدایت سے میری مراد راستے کی ہدایت ہے اور صراط سے مراد تمہارا اپنے تیر کو ٹھیک کرنا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قسی اور سرخ میثرہ (ریشمی کپڑوں کی قسمیں) استعمال کرنے سے منع کیا اور مجھے اس بات سے بھی منع کیا کہ میں پانی اس اور اس انگلی میں انگوٹھی پہنوں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے یہ بات کہی تھی۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان اس روایت کو عاصم نامی راوی کے حوالے سے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبکر سے نقل کرتے ہیں، تو ان سے یہ کہا گیا: دیگر محدثین نے تو اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبردہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ تو انہوں نھے کہا: میں نے تو اس روایت کو اسی طرح یاد رکھا ہے کہ یہ ابوبکر بن ابوموسیٰ سے منقول ہے۔ لیکن اگر دوسرے لوگ مجھ سے مختلف روایت کررہے ہیں تم یہ الفاظ شامل کرلو کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادے سے یہ بات منقول ہے۔ تو سفیان کا یہ معمول تھا کہ اس کے بعد وہ بعض اوقات اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سے منقول روایت کے طور پر بیان کرتے تھے اور بعض اوقات اسے بھول جاتے تھے، تو جو انہوں نے سنا ہوا تھا اس کے مطابق سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبکر کے حوالے سے نقل کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2078، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 998، 5502، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7795، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5225، 5226، 5227، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9465، 9466، 9467، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4225، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1786، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3648، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6202، 6203، والدارقطني فى «سننه» برقم: 97، وأحمد فى «مسنده» برقم: 596، 675، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 281، 418، 419، 606، 607»
53 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عبد الملك بن اعين سمعه من ابي حرب بن ابي الاسود الديلي يحدثه عن ابيه قال: سمعت عليا يقول: اتاني عبد الله بن سلام وقد ادخلت رجلي في الغرز فقال لي: اين تريد؟ فقلت: العراق فقال: «اما إنك إن جئتها ليصيبك بها ذباب السيف» فقال علي: «وايم الله لقد سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم? قبله يقوله» فقال ابو حرب فسمعت: ابي يقول: فعجبت منه وقلت: رجل محارب يحدث بمثل هذا عن نفسه53 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ يُحَدِّثُهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: أَتَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ وَقَدْ أَدْخَلْتُ رِجْلِي فِي الْغَرْزِ فَقَالَ لِي: أَيْنَ تُرِيدُ؟ فَقُلْتُ: الْعِرَاقَ فَقَالَ: «أَمَا إِنَّكَ إِنْ جِئْتَهَا لَيُصِيبُكَ بِهَا ذُبَابُ السَّيْفِ» فَقَالَ عَلِيٌّ: «وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ? قَبْلَهُ يَقُولُهُ» فَقَالَ أَبُو حَرْبٍ فَسَمِعْتُ: أَبِي يَقُولُ: فَعَجِبْتُ مِنْهُ وَقُلْتُ: رَجُلٌ مُحَارِبٌ يُحَدِّثُ بِمِثْلِ هَذَا عَنْ نَفْسِهِ
53- ابواسود دیلی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: میرے پاس عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے، میں اس وقت اپنا پاؤں رکاب میں داخل کرچکا تھا انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: عراق۔ وہ بولے اگر آپ وہاں چلے گئے تو آپ کو تلوار کی دھار ضرور لگے گی۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم اس سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سن چکا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:: 491، وصحیح ابن حبان: 6733، المستدرک للحاکم: 4678»
54 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ابو إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «قد تجاوزت لكم عن صدقة الخيل والرقيق» 54 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ تَجَاوَزْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ»
54- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں نے تمہیں گھوڑے اور غلام کی زکوٰاۃ معاف کردی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:: 580، 299، وابن ماجه: 1790، سنن ابي داود/الزكاة 1572، تحفة الأشراف: 10039، وقد أخرجه: سنن الترمذي/الزكاة 3 - 620، سنن النسائي/الزكاة 18 - 2479، مسنده احمد 1/121، 132، 146، سنن الدارمي/الزكاة 7- 1669»
55 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ابو إسحاق، عن الحارث، عن علي ان رسول الله صلي الله عليه وسلم: «قضي ان اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات» 55 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَضَي أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ»
55- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے، عینی (حقیقی) بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ علاقی (ماں کی طرف سے) بھائی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:: 625، 300، والترمذي: 2095، 2094 وابن ماجه: 2715، تحفة الأ شراف: 10043، وقد أخرجه: مسنده احمد 1/79، 131، 144، سنن الدارمي/الفرائض 28 - 3027 حسن»
56 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ابو إسحاق، عن الحارث، عن علي بن ابي طالب قال: «قضي رسول الله صلي الله عليه وسلم بالدين قبل الوصية وانتم تقرءون الوصية قبل الدين» 56 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقِ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: «قَضَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ»
56- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے، (میت کی) وصیت پر عمل کرنے سے پہلے (اس کے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کیا جائے گا، حالانکہ تم لوگ (قرآن میں) وصیت کا ذکر قرض سے پہلے پڑھتے ہو ۱؎۔ ۱؎(اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصى بها أو دين» کی طرف ہے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الترمذي: 2095، 2122، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 300، وابن ماجه: 2715، أحمد: 144/1، برقم: 1221»