حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا وكيع ، ويونس بن بكير ، قالا: حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصفا، فقال: يا فاطمة بنت محمد، يا صفية بنت عبد المطلب، يا بني عبد المطلب، لا املك لكم من الله شيئا، سلوني من مالي ما شئتم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَيُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّفَا، فَقَالَ: يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ ".
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب آیت: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ نازل ہوئی تو رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑ پر کھڑے ہو کر فرمایا: ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی فاطمہ! اے عبد المطلب کی بیٹی صفیہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ (ہاں!) میرے مال میں سے جوچاہو مجھ سے مانگ لو۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ جب سورۂ شعراء کی آیت ”اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑ پر چڑھ کر فرمایا: ”اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی لخت ِ جگر فاطمہ! اےعبدالمطلب کی بیٹی صفیہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمھارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں (یعنی اس کی اجازت کے بغیر اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتا) میرے مال سے جو چاہو مانگ لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (17338)»
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني ابن المسيب ، وابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان ابا هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزل عليه وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214: " يا معشر قريش، اشتروا انفسكم من الله، لا اغني عنكم من الله شيئا، يا بني عبد المطلب، لا اغني عنكم من الله شيئا، يا عباس بن عبد المطلب، لا اغني عنك من الله شيئا، يا صفية عمة رسول الله، لا اغني عنك من الله شيئا، يا فاطمة بنت رسول الله، سليني بما شئت، لا اغني عنك من الله شيئا "،وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أن أبا هريرة ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، سَلِينِي بِمَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا "،
ابن مسیب اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری گئی: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں“ تو آپ نے فرمایا: ” اے قریش کےلوگو!اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو، میں اللہ تعالیٰ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبد المطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کےرسول کے بیٹی فاطمہ! مجھ سے (میرے مال میں سے) جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے (فیصلےکے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم پر سورۂ شعراء کی آیت: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قریش کی جماعت! اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو (ایمان لا کر نیک اعمال کر لو)، میں اللہ تعالی کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اے عبدالمطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں تم سے اللہ کے عذاب کو نہیں ٹال سکتا، اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آسکتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه) في الوصايا، باب: هل يدخل النساء والولد في الاقارب برقم (2753) تعليقا - وفي التفسير، باب: ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ برقم (4771) ايضا معلقا وأخرجه النسائي في ((المجتبي)) في الوصايا، باب اذا اوصي لعشيرته الأقربين 248/6 - انظر ((التحفة)) برقم (15328)»
یزید بن زریع نے (سلیمان) تیمی سے، انہوں نے ابو عثمان کے واسطے سے حضرت قبیصہ بن مخارق اور حضرت زہیر بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، دونوں نےکہا کہ جب آیت: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ اتری، کہا: تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑی چٹان کی طرف تشریف لے گئے اور اس کے سب سے اونچے پتھروں والے حصے پر چڑھے، پھر آواز دی: ” اے عبد مناف کی اولاد! میں ڈرانے والا ہوں، میری اور تمہاری مثال اس آدمی کی ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ خاندان کو بچانے کے لیے چل پڑا اور اسے خطرہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے تووہ بلند آواز سے پکارنے لگاؤ: وائے اس کی صبح (کی تباہی!)“
حضرت قبیصہؓ اور زہیر بن عمرو ؓ سے روایت ہے: کہ جب آیت: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ اتری، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑی ٹیلے پر تشریف لے گئے، اور اس کے سب سے اونچے پتھر پر چڑھ گئے، پھر آواز دی: ” اے عبد مناف کی اولاد! میں ڈرانے والا ہوں، میری اور تمھاری مثال اس آدمی کی ہے جس نے دشمن کو دیکھا، تو وہ خاندان کو بچانے کے لیے چل پڑا اور اسے خطرہ محسوس ہوا کہ دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے، تو وہ چلانے لگا: اے صبح کا حملہ!(دشمن سے چوکنے ہوجاؤ)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3652 و (11066)»
وحدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا ابو اسامة ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: " لما نزلت هذه الآية وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 ورهطك منهم المخلصين، خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى صعد الصفا، فهتف: يا صباحاه، فقالوا: من هذا الذي يهتف؟ قالوا: محمد، فاجتمعوا إليه، فقال: يا بني فلان، يا بني فلان، يا بني فلان، يا بني عبد مناف، يا بني عبد المطلب، فاجتمعوا إليه، فقال: ارايتكم لو اخبرتكم، ان خيلا تخرج بسفح هذا الجبل، اكنتم مصدقي؟ قالوا: ما جربنا عليك كذبا، قال: فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد "، قال: فقال ابو لهب: تبا لك اما جمعتنا إلا لهذا، ثم قام فنزلت هذه السورة تبت يدا ابي لهب وقد تب كذا، قرا الاعمش إلى آخر السورة،وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا، فَهَتَفَ: يَا صَبَاحَاهْ، فَقَالُوا: مَنْ هَذَا الَّذِي يَهْتِفُ؟ قَالُوا: مُحَمَّدٌ، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ، أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِسَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ "، قَالَ: فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا، ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَقَدْ تَبَّ كَذَا، قَرَأَ الأَعْمَشُ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ،
ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“(خاص کر) اپنے خاندان کے مخلص لوگوں کو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور پکار کر کہا: ”وائے اس کی صبح (کی تباہی) ِِ (سب ایک دوسرے سے) پوچھنے لگے: یہ کون پکا رہا ہے؟ (کچھ) لوگوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، چنانچہ سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ” اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے عبدمناف کی اولاد! اے عبد المطلب کی اولاد!“ یہ لوگ آپ کےقریب جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا: ”تمہارا کیا خیال ہے ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟“ انہوں نے کہا: ہمیں آپ سے کبھی جھوٹی بات (سننے) کا تجربہ نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”تو میں تمہیں آنےوالے شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ابولہب کہنے لگا: تمہارے لیے تباہی ہو، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لیے جمع کیا تھا؟ پھر وہ اٹھ گیا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی: ”ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے اور وہ خود ہلاک ہوا۔“ اعمش نے اسی طرح سورت کے آخر تک پڑھا۔
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے: کہ جب یہ آیت اتری: ”اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“ اور ان میں سے خاص کر اپنے خاندان کے سچے اور مخلص لوگوں کو، تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نکل کر صفا پہاڑ پر چڑھے اور بلند آواز سے فرمایا: "يَا صَبَاحَاهُ" ”دفاع کے لیے تیار ہو جاؤ!“ لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: یہ کون آواز دے رہا ہے؟ جواب ملا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) تو سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے عبد مناف کی اولاد! اے عبدالمطلب کی اولاد!“ یہ لوگ آپ کے قریب جمع ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”بتاؤ! اگر میں تمھیں اطلاع دوں، کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟“ انھوں نے کہا: ہم نے تمھیں کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں سخت عذاب (کی آمد) سے پہلے ڈرا رہا ہوں۔“ تو ابو لہب نے کہا: تم ہلاک ہو جاؤ! کیا تو نے ہمیں اس خاطر جمع کیا تھا؟ پھر وہ کھڑا ہو گیا، تو اس پر یہ سورت اتری! ”ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے۔“ یقیناً وہ خود ہلاک ہوا۔(سورۂ لہب) اعمش نے پوری سورت قراءت کی اور "قَد" کے اضافے سے پڑھا۔ یعنی "قَد تَبَّ" پڑھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب: ذكر شرار الموتى برقم (1394) مختصراً - وفي المناقب، باب: من انتسب الى آبائه فى الاسلام والجاهلية برق (3526) وفي التفسير، باب: ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ برقم (4801) وفي، باب: ﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴾ برقم (4971 و 4972 و 4973) والترمذى فى((جامعه)) في التفسير، باب: و من سورة ﴿ تَبَّتْ يَدَا ﴾ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3363) انظر ((التحفة)) برقم (5594)»
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قال: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، بهذا الإسناد، قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم الصفا، فقال: " يا صباحاه "، بنحو حديث ابي اسامة، ولم يذكر نزول الآية وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الصَّفَا، فَقَالَ: " يَا صَبَاحَاهْ "، بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ نُزُولَ الآيَةِ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214.
اعمش شے (ابو اسامہ کے بجائے) ابو معاویہ نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کوہ صفا پر چڑھے اور فرمایا: ” وائے اس کی صبح (کی تباہی!)“ اس کے بعد ابو اسامہ کی بیان کر دہ حدیث کی طرح روایت کی اورآیت: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ اترنے کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کوہِ صفا پر چڑھے اور فرمایا: «يَا صَبَاحَاهُ» ابو اسامہ کی طرح روایت بیان کی۔ لیکن آیت ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ کے اترنے کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (507)»
ابو عوانہ نے عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے اور انہوں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کےرسول! کیا آپ نے ابو طالب کو کچھ نفع پہنچایا؟ وہ ہر طرف سے آپ کا دفاع کرتے تھے اور آپ کی خاطر غضب ناک ہوتے تھے۔آپ نےجواب دیا: ”ہاں، وہ کم گہری آگ میں ہیں (جو ٹخنوں تک آتی ہے) اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“
حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ نے ابو طالب کو کچھ نفع پہنچایا؟ وہ آپ کی حفاظت اور دفاع کرتا تھا، اور آپ کی خاطر غضب ناک ہوتا تھا۔ آپؐ نے جواب دیا: ”ہاں! وہ آگ میں ٹخنوں تک ہے، اگر میں نہ ہوتا (اس کی سفارش نہ کرتا)، تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في مناقب الانصار، باب: قصة ابي طالب برقم (3883) وفي الادب، باب: كنية المشرك برقم (6208) وفي الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6572) مختصرا - انظر ((التحفة)) برقم (5128)»
سفیان (بن عیینہ) نے عبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی، انہوں نے عبد اللہ بن حارث سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ابو طالب ہر طرف سے آپ کی حفاظت کرتے تھے، آپ کی مدد کرتے تھے اور آپ کی خاطر (مخالفین پر) غصہ کرتے تھے توکیا اس سے ان کو کچھ نفع ہوا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، میں نے ان کو آگ کی اتھاہ گہرائیوں میں پایا تو ان کم گہری آگ تک نکال لایا۔“
حضرت عباسؓ سے روایت ہے، کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! ابو طالب آپ کی حفاظت کرتا تھا، اور آپ کی مدد کرتا تھا (آپ کی خاطر لوگوں سے ناراض ہوتا تھا)، تو کیا اس سے اس کو کچھ نفع ہوا؟ آپؐ نے فرمایا: ”ہاں! میں نے اس کو آگ کی گہرائی میں پایا، تو اس کو میں ہلکی آگ (ٹخنوں تک) میں نکال لایا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (509)»