الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 509
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالاصحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ،
اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیرکسی کی،
حتی کہ اپنے انتہائی عزیز رشتہ داروں کی بھی سفارش نہیں کریں گے،
اورقرآن مجیدمیں صراحتاً فرمایا گیاہے:
﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلً﴾ (سورة طه: 109)
”اس دن شفاعت کسی کونفع نہ دےگی،
مگر اس شخص کو جس کےحق میں رحمان نے اجازت دے دی،
اوراس کےحق میں بولنا پسند فرما لیا۔
“ آیت الکرسی میں فرمایا:
﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ ”کون ایسا ہے جواس کےسامنے اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔
“ ان صریح احادیث وآیات کے باوجود یہ کہنا:
”کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شفاعت کا مالک ومختار بنا دیا ہے“کس قدرجسارت ہے،
اورساتھ ہی یہ ماننا،
آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی اجازت اوراس کے بتائے بغیر شفاعت کے مالک ومختارنہیں ہیں۔
جس کو اجازت لینے اور اطلاع دینے کی ضرورت ہو اس کو مالک ومختار کہا جائے گا،
جوکسی چیز کا مالک اورمختارہوتا ہے،
اسے اس کے بارےمیں کسی سے اجازت لینےکی ضرورت نہیں ہوتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 509