وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قال: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، بهذا الإسناد، قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم الصفا، فقال: " يا صباحاه "، بنحو حديث ابي اسامة، ولم يذكر نزول الآية وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الصَّفَا، فَقَالَ: " يَا صَبَاحَاهْ "، بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ نُزُولَ الآيَةِ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214.
اعمش شے (ابو اسامہ کے بجائے) ابو معاویہ نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کوہ صفا پر چڑھے اور فرمایا: ” وائے اس کی صبح (کی تباہی!)“ اس کے بعد ابو اسامہ کی بیان کر دہ حدیث کی طرح روایت کی اورآیت: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ اترنے کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کوہِ صفا پر چڑھے اور فرمایا: «يَا صَبَاحَاهُ» ابو اسامہ کی طرح روایت بیان کی۔ لیکن آیت ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ کے اترنے کا تذکرہ نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 208
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (507)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 509
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مذکورہ بالاصحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ، اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیرکسی کی، حتی کہ اپنے انتہائی عزیز رشتہ داروں کی بھی سفارش نہیں کریں گے، اورقرآن مجیدمیں صراحتاً فرمایا گیاہے: ﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلً﴾(سورة طه: 109) ”اس دن شفاعت کسی کونفع نہ دےگی، مگر اس شخص کو جس کےحق میں رحمان نے اجازت دے دی، اوراس کےحق میں بولنا پسند فرما لیا۔ “ آیت الکرسی میں فرمایا: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾”کون ایسا ہے جواس کےسامنے اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔ “ ان صریح احادیث وآیات کے باوجود یہ کہنا: ”کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شفاعت کا مالک ومختار بنا دیا ہے“کس قدرجسارت ہے، اورساتھ ہی یہ ماننا، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی اجازت اوراس کے بتائے بغیر شفاعت کے مالک ومختارنہیں ہیں۔ جس کو اجازت لینے اور اطلاع دینے کی ضرورت ہو اس کو مالک ومختار کہا جائے گا، جوکسی چیز کا مالک اورمختارہوتا ہے، اسے اس کے بارےمیں کسی سے اجازت لینےکی ضرورت نہیں ہوتی۔