حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا ابو الاشهب ، عن الحسن ، قال: عاد عبيد الله بن زياد معقل بن يسار المزني في مرضه الذي مات فيه، قال معقل : إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لو علمت ان لي حياة ما حدثتك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من عبد يسترعيه الله، رعية يموت، يوم يموت وهو غاش لرعيته، إلا حرم الله عليه الجنة ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْهَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: عَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، قَالَ مَعْقِلٌ : إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ، رَعِيَّةً يَمُوتُ، يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ".
ابو اشہب نے حسن (بصری) سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: عبید اللہ بن زیاد نےحضرت معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کے مرض ا لموت میں ان کی عیادت کی تو معقل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگاہوں جو میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ اگر میں جانتا کہ میں ا بھی اور زندہ رہوں گا تو تمہیں یہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ” کوئی ایسا بندہ جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔“
حسن ؒ بیان کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت معقل بن یسار مزنی ؓ کی مرض الموت میں عیادت کی تو معقل ؓ کہنے لگے: میں تمھیں ایک ایسی حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ابھی کچھ عرصہ اور زندہ رہوں گا تو تمھیں یہ حدیث نہ سناتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ کسی کا نگران اور محافظ بناتا ہے اور وہ اپنی رعایا کے (حقوق میں) خیانت کرتا ہوا مرتا ہے، تو اس پر اللہ نے جنّت حرام کر دی ہے۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا يزيد بن زريع ، عن يونس ، عن الحسن ، قال: دخل عبيد الله بن زياد على معقل بن يسار ، وهو وجع فساله، فقال: إني محدثك حديثا لم اكن حدثتكه، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يسترعي الله عبدا رعية يموت حين يموت وهو غاش لها، إلا حرم الله عليه الجنة "، قال: الا كنت حدثتني هذا قبل اليوم؟ قال: ما حدثتك او لم اكن لاحدثك.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: دَخَلَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ عَلَى مَعْقَلِ بْنِ يَسَارٍ ، وَهُوَ وَجِعٌ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا لَمْ أَكُنْ حَدَّثْتُكَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَسْتَرْعِي اللَّهُ عَبْدًا رَعِيَّةً يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهَا، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "، قَالَ: أَلَّا كُنْتَ حَدَّثْتَنِي هَذَا قَبْلَ الْيَوْمِ؟ قَالَ: مَا حَدَّثْتُكَ أَوْ لَمْ أَكُنْ لَأُحَدِّثَكَ.
(ابو اشہب کے بجائے) یونس نے حسن سے روایت کی، انہوں نےکہا: عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ اس وقت بیمارتھے او ران کا حال پوچھا، تو وہ کہنے لگے: میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے پہلے تمہیں نہیں سنائی تھی، بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے او رموت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں دھوکے بازی کرنے والا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔“ عبیداللہ نےکہا: کیا آپ نے پہلے مجھے یہ حدیث نہیں سنائی؟ معقل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تمہیں نہیں سنائی یا میں تمہیں نہیں سنا سکتا تھا۔
حسنؒ سے روایت ہے کہ جب حضرت معقل بن یسار ؓ بیمار ہوئے توعبید اللہ بن زیاد (ان کی بیمار پرسی کے لیے) ان کے پاس آیا اور ان کا حال پوچھا تو وہ کہنے لگے: میں تمھیں ایسی حدیث سنانے لگا ہوں، جو میں نے پہلے تمھیں نہیں سنائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیّت کا محافظ بناتا ہے، اور وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ وہ اس (رعیّت) کے ساتھ دھوکا کرنے والا ہوتا ہے، تو اللہ اس کے لیے جنّت ممنوع قرار دے دیتا ہے۔“ عبید اللہ نے کہا: آپ نے آج سے پہلے مجھے یہ حدیث کیوں نہیں سنائی؟ تو انھوں نے جواب دیا: میں نے تجھے نہیں سنائی یا میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔ (کیونکہ زندگی میں بیان کرنےکی صورت میں خطرہ تھا۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (361)»
(ایک اور سند سے) ہشام سے روایت ہے، انہوں نےکہا: حسن نے کہا: ہم معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کےہاں ان کی عیادت کررہے تھے کہ عبید اللہ بن زیاد آ گیا۔ معقل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی ...... پھر ہشام نے باقی حدیث ان دونوں (ابو الاشہب اور یونس) کی حدیث کے مفہوم کے مطابق بیان کی۔
حسنؒ نے بتایا: ہم معقل بن یسار ؓ کے پاس عیادت کے لیے گئے ہوئے تھے کہ عبید اللہ بن زیاد بھی آگیا تو معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تمھیں ایسی حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، پھر اوپر کے مفہوم والی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (361)»
وحدثنا ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، عن ابي المليح ، ان عبيد الله بن زياد، عاد معقل بن يسار في مرضه، فقال له معقل : إني محدثك بحديث، لولا اني في الموت لم احدثك به، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من امير يلي امر المسلمين، ثم لا يجهد لهم وينصح، إلا لم يدخل معهم الجنة ".وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ، عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ : إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ، لَوْلَا أَنِّي فِي الْمَوْتِ لَمْ أُحَدِّثْكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلِي أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ لَا يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ، إِلَّا لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ ".
ابو ملیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نےمعقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بیماری میں ان کی عیادت کی تو معقل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں موت (کی راہ) میں نہ ہوتا تو تمہیں یہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ” کوئی امیر جو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، پھر وہ ان (کی بہبود) کے لیے کوشش اور خیر خواہی نہیں کرتا، وہ ان کے ہمراہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔“
ابو الملیحؒ سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے معقل بن یسارؓ کی بیماری میں ان کی عیادت کی تو معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تمھیں ایک حدیث سناتا ہوں، اگر میں مر نہ رہا ہوتا تو وہ نہ سناتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”جو امیر بھی مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے، پھر وہ (ان کی بہتری و بہبود کے لیے) کوشش نہیں کرتا تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو باتیں بتائیں، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے ہمیں بتایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری، پھر قرآن اترا، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا، آپ نے فرمایا: ” آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا، پھر وہ ایک نیند لے گا تو (بقیہ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو (وہ حصہ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔“ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔”پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا: ”فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا، وہ کس قدر مضبوط ہے، کتنا لائق ہے، کیسا عقل مند ہے! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر (بھی) ایمان نہ ہو گا۔“(پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:) مجھ پر ایک دو گزرا، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں سنائیں ایک تو میں دیکھ چکا ہوں (پوری ہو چکی ہے) اور دوسری کا میں منتظر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اُتری، پھر قرآن اترا تو انھوں نے قرآن جانا اور سنّت سے جانا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری حدیث) امانت کے اٹھنے کے بارے میں بیان فرمائی، فرمایا: ”ایک آدمی تھوڑی دیرسوئے گا تو اس کے دل سے امانت قبض کر لی جائے گی، اور اس کا نشان ایک پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر وہ کچھ وقت کے لیے سوئے گا تو امانت اس کے دل سے قبض کر لی جائے گی، اور اس کا نشان آبلہ کی طرح رہ جائے گا، جیسا کہ تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکا دو تو اس پر آبلہ بن جائے، تو تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو اور اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکا دیا۔ ”تو پھر لوگ خرید فروخت کریں گے، تو ان میں سے کوئی ایسا نہیں ملے گا جو امانت ادا کرے یہاں تک کہ لوگ کہیں گے: فلاں خاندان میں ایک امانت دار آدمی ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا وہ کس قدر بیدار مغز، خوش مزاج اور عقل مند ہے۔ اور اس کی تعریف و توصیف کریں گے اور اس کے دل میں رائی کے دانے کے بقدر ایمان نہیں ہو گا۔“ حذیفہ ؓ کہتے ہیں: مجھ پر ایک دور گزر چکا ہے، کہ مجھے کسی کے ساتھ لین دین کرنے میں کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو میرے ساتھ خیانت کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہوتا تو اس کا حاکم اس کو مجھے نقصان پہنچانے سے روکتا، لیکن آج میں تمھارے ساتھ فلاں فلاں کے سوا کسی سے معاملہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى الرقاق، باب: رفع الامانة برقم (6132) وفي ((الفتن)) باب: اذا بقى فى حثالة من الناس برقم (6675) وفى الاعتصام بالكتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (6848) مختصراً- والترمذی فی ((جامعه)) في الفتن، باب: ما جاء فى رفع الامانة برقم (2179) وقال: حديث حسن صحيح۔ وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: ذهاب الامانة برقم (4053) انظر ((التحفة)) برقم (3328)»
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابو خالد يعني سليمان بن حيان ، عن سعد بن طارق ، عن ربعي ، عن حذيفة، قال: كنا عند عمر، فقال: ايكم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن؟ فقال قوم: نحن سمعناه، فقال: لعلكم تعنون فتنة الرجل في اهله وجاره؟ قالوا: اجل، قال: تلك تكفرها، الصلاة، والصيام، والصدقة، ولكن ايكم سمع النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن، التي تموج موج البحر؟ قال حذيفة: فاسكت القوم، فقلت: انا، قال: انت لله ابوك، قال حذيفة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " تعرض الفتن على القلوب كالحصير عودا عودا، فاي قلب اشربها نكت فيه نكتة سوداء، واي قلب انكرها نكت فيه نكتة بيضاء، حتى تصير على قلبين على ابيض مثل الصفا، فلا تضره فتنة ما دامت السماوات والارض والآخر اسود مربادا كالكوز مجخيا، لا يعرف معروفا، ولا ينكر منكرا، إلا ما اشرب من هواه "، قال حذيفة وحدثته: ان بينك وبينها، بابا مغلقا يوشك ان يكسر، قال عمر: اكسرا، لا ابا لك، فلو انه فتح لعله كان يعاد؟ قلت: لا، بل يكسر، وحدثته ان ذلك الباب رجل يقتل او يموت حديثا ليس بالاغاليط، قال ابو خالد: فقلت لسعد: يا ابا مالك، ما اسود مربادا؟ قال: شدة البياض في سواد، قال: قلت: فما الكوز مجخيا؟ قال: منكوسا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْفِتَنَ؟ فَقَالَ قَوْمٌ: نَحْنُ سَمِعْنَاهُ، فَقَالَ: لَعَلَّكُمْ تَعْنُونَ فِتْنَةَ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَجَارِهِ؟ قَالُوا: أَجَلْ، قَالَ: تِلْكَ تُكَفِّرُهَا، الصَّلَاةُ، وَالصِّيَامُ، وَالصَّدَقَةُ، وَلَكِنْ أَيُّكُمْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْفِتَنَ، الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ: فَأَسْكَتَ الْقَوْمُ، فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: أَنْتَ لِلَّهِ أَبُوكَ، قَالَ حُذَيْفَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا، فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ، حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا، فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ وَالآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا، لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ "، قَالَ حُذَيْفَةُ وَحَدَّثْتُهُ: أَنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا، بَابًا مُغْلَقًا يُوشِكُ أَنْ يُكْسَرَ، قَالَ عُمَرُ: أَكَسْرًا، لَا أَبَا لَكَ، فَلَوْ أَنَّهُ فُتِحَ لَعَلَّهُ كَانَ يُعَادُ؟ قُلْتُ: لَا، بَلْ يُكْسَرُ، وَحَدَّثْتُهُ أَنَّ ذَلِكَ الْبَابَ رَجُلٌ يُقْتَلُ أَوْ يَمُوتُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ، قَالَ أَبُو خَالِدٍ: فَقُلْتُ لِسَعْدٍ: يَا أَبَا مَالِكٍ، مَا أَسْوَدُ مُرْبَادًّا؟ قَالَ: شِدَّةُ الْبَيَاضِ فِي سَوَادٍ، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الْكُوزُ مُجَخِّيًا؟ قَالَ: مَنْكُوسًا.
ابو خالد سلیمان بن حیان نے سعد بن طارق سے حدیث سنائی، انہوں نے ربعی سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےپاس تھے، انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ کچھ لوگوں نے جواب دیا: ہم نے یہ ذکر سنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تم و ہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اس کے اہل، مال اور پڑوسی (کے بارے) میں پیش آتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس فتنے (اہل، مال اور پڑوسی کے متعلق امور میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں) کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں۔ لیکن تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فتنے کا ذکر سنا ے جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا: میں نے (سنا ہے۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے، تیرا باپ اللہ ہی کا (بندہ) ہے (کہ اسے تم سا بیٹا عطا ہوا۔) حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا، آپ فرما رہے تھے: ”فتنے دلوں پر ڈالیں جائیں گے، چٹائی (کی بنتی) کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا (اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا)، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا اور جس دل میں ان کو رد کر دیا اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید، چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا، جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرا کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند (جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے کا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا۔“ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نےعمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازے ہے، قریب ہے کہ اسے توڑ دیا جائے گا؟ اگر اسے کھول دیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے دوبارہ بند کیا جاسکے۔ میں نے کہا: نہیں! بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ اور میں نے انہیں بتا دیا: وہ دروازہ آدمی ہے جسے قتل کر دیا جائے گا یا فوت ہو جائے گا۔ (حذیفہ نے کہا: میں نے انہیں) حدیث (سنائی کوئی)، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں۔ ابو خالدنے کہا: میں نے سعد سے پوچھا: ابو مالک!أسودمرباداً سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: کالے رنگ میں شدید سفیدی (مٹیالے رنگ۔) کہا: میں نے پوچھا: الکوز مجخیاسے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: الٹا کیا ہوا کوزہ۔
حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر تھے تو انھوں (عمر ؓ) نے پوچھا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنوں کا ذکر سنا ہے؟ تو کچھ لوگوں نے جواب دیا: ہم نے سنا ہے۔ تو عمر ؓ نے فرمایا: شاید تم وہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اپنے اہل، مال اور پڑوسی کے سلسلہ میں پیش آتی ہے۔ انھوں نے کہا ہاں! عمر ؓ نے کہا: ”اس فتنہ (آزمائش و ابتلا) کا کفّارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں۔ لیکن تم میں سے کس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فتنہ کا ذکر سنا ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہو گا؟“ حذیفہ ؓ نے بتایا: اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے، تو میں نے کہا: میں نے (سنا ہے)۔ عمر ؓ نے کہا: تیرا باپ اللہ کا کرشمہ ہے۔ حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ نے فرمایا: ”فتنے لوگوں کے دلوں پر چٹائی کے تنکوں کی طرح ایک ایک کر کے پیش کیے جائیں گے، تو جس دل میں وہ پیوستہ ہو گئے اس میں سیاہ نقطہ پڑ جائے گا، اور جس دل نے ان کو قبول نہ کیا، اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو قسم کے ہو جائیں گے۔ چٹان کی طرح سفید، تو جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے ایسے دلوں کو کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرے اوندھے لوٹے کی طرح خاکی سیاہ جو نہ کسی معروف کو پہچانیں گے اور نہ کسی منکر کا انکار کریں گے، مگر جس چیز سے ان کی خواہش پوری ہو۔“ حذیفہ ؓ نے کہا میں نے عمر کو بتایا: کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازہ ہے جو جلد ٹوٹ جائے گا۔ عمر نے پوچھا: کیا توڑ دیا جائے گا؟ تیرا باپ نہ ہو! اگر وہ کھول دیا جائے تو بند کیا جا سکتا تھا۔ میں نے کہا کھولا نہیں، توڑا جائے گا۔ اور میں نے کہا: وہ دروازہ ایک آدمی ہے جو قتل کیا جائے گا یا مرے گا۔ صاف بات ہے پہیلی یا معمّہ نہیں ہے۔ ابو خالدؒ کہتے ہیں: میں نے سعدؒ سے پوچھا اے ابو مالک! "أَسْوَدُ مُرْبَادًّا" سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا: سیاہی میں بہت سفیدی۔ میں نے پوچھا "الْكُوزُ مُجَخِّيًا" سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا الٹا ہوا (پیالہ)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3319)»
وحدثني ابن ابي عمر ، حدثنا مروان الفزاري ، حدثنا ابو مالك الاشجعي ، عن ربعي ، قال: لما قدم حذيفة من عند عمر جلس فحدثنا، فقال: إن امير المؤمنين امس، لما جلست إليه سال اصحابه: ايكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتن؟ وساق الحديث بمثل حديث ابي خالد، ولم يذكر تفسير ابي مالك لقوله: مربادا مجخيا.وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ حُذَيْفَةُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ جَلَسَ فَحَدَّثَنَا، فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمْسِ، لَمَّا جَلَسْتُ إِلَيْهِ سَأَلَ أَصْحَابَهُ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ؟ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي خَالِدٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ تَفْسِيرَ أَبِي مَالِكٍ لِقَوْلِهِ: مُرْبَادًّا مُجَخِّيًا.
مروان فزاری نے کہا: ہمیں ابو مالک اشجعی نے حضرت ربعی سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: جب حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس سے آئے تو بیٹھ کر ہمیں باتیں سنانے لگے اور کہا: کل جب میں امیر المومنین کی مجلس میں بیٹھا تو انہوں نے اپنے رفقاء سے پوچھا: تم میں سے کس نے فتنوں کے بارے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھا ہواہے؟....... پھر (مروان فزاری نے) ابو خالد کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی لیکن مرباداً مجخیاً سے متعلق ابو مالک کی تفسیر ذکر نہیں کی۔
ابو مالک اشجعی ؒ کی ربعی ؒ سے روایت ہے کہ جب حذیفہؓ، عمرؓ کی مجلس سے آئے تو ہمیں بتانے لگے: کہ جب گزشتہ کل میں امیر المؤمنین عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا، تو انھوں نے اپنے رفقاء سے پوچھا تم میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنوں کے بارے میں فرمان یاد ہے؟ اور ابو خالدؒ کی روایت کی طرح روایت سنائی، لیکن ابو مالکؒ کی "مُرْبَادًّا مُجَخِّيًا" کی تفسیر بیان نہیں کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
نعیم بن ابی ہند نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں کون ہمیں بتائے گا (اور ان میں حذیفہ رضی اللہ عنہ موجود تھے) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کے بارے میں فرمایا تھا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آگے ابو مالک کی وہی روایت بیان کی ہے جو انہوں نے ربعی سے بیان کی اور اس میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بیان کیا کہ میں نے انہیں حدیث سنائی تھی، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں، یعنی وہ حدیث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تھی۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہےکہ عمر ؓ نے پوچھا: ”کوئی ہمیں سنائے گا، یا تم میں سے کون ہمیں وہ روایت سنائے گا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں فرمائی تھی۔“ حذیفہ ؓ نے کہا: میں! آگے ابو مالکؒ کی ربعیؒ سے حدیث کی طرح بیان کی اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، میں نے اسے حدیث سنائی تھی، معمّہ نہیں، مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تھی (اپنی بات نہیں)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوا اور یقیناً (آخر میں) اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ تو اجنبی بن کر رہ جانے والوں کے لیے مسرّت و شادمانی ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: بدأ الاسلام غريباً - برقم (3986) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (13447)»