صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
حدیث نمبر: 303
Save to word اعراب
حدثني ابو غسان المسمعي ، حدثنا معاذ وهو ابن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن يحيى بن ابي كثير ، قال: حدثني ابو قلابة ، عن ثابت بن الضحاك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليس على رجل نذر فيما لا يملك، ولعن المؤمن كقتله، ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا، عذب به يوم القيامة، ومن ادعى دعوى كاذبة ليتكثر بها، لم يزده الله إلا قلة، ومن حلف على يمين صبر، فاجرة ".حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ عَلَى رَجُلٍ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا، عُذِّبَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنِ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِيَتَكَثَّرَ بِهَا، لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا قِلَّةً، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ، فَاجِرَةٍ ".
ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے سابقہ سند کے ساتھ حدیث سنائی کہ حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے، اس کےبارے میں (مانی ہوئی) نذر اس کے ذمے نہیں ہے۔ مومن پر لعنت بھیجنا (گناہ کے اعتبار سے) اس کے قتل کے مترادف ہے اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا، قیامت کے دن اسی چیز سے اس کو عذاب دیا جائے گا، اور جس نے (مال میں) اضافے کے لیے جھوٹا دعویٰ کیا، اللہ تعالیٰ اس (کے مال) کی قلت ہی میں اضافہ کرے گا اور جس نے ایسی قسم جو فیصلے کے لیے ناگزیر ہو، جھوٹی کھائی (اس کا بھی یہی حال ہو گا۔)
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے اس کے بارے میں نذر اس کے ذمہ نہیں ہے۔ مومن پر لعنت بھیجنا اس کے قتل کے مترادف ہے۔ اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز سے اس کو عذاب دیا جائے گا۔ اور جس نے مال میں اضافہ کے لیے جھوٹا دعویٰ کیا، اللہ تعالیٰ اس کے مال میں کمی کرے گا، یہی حال اس کا ہو گا جو فیصلہ کن جھوٹی قسم اٹھاتا ہے (یعنی جس قسم پر قاضی یا حاکم کو فیصلہ دینا ہے وہ مال بٹورنے کے لیے جھوٹی اٹھائے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازى، باب: غزوة الحديبيه برقم (3938) مختصرا في غير ذكر الحديث وفي التفسير، باب: ﴿إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ برقم (4562) مختصراً بدون ذكر الحديث وابوداؤد في ((سننه)) في الايمان والنذور، باب: ما جاء في الحلف بالبراة وبملة غير الاسلام برقم (3257) انظر ((التحفة)) برقم (2063)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 304
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وإسحاق بن منصور ، وعبد الوارث بن عبد الصمد كلهم، عن عبد الصمد بن عبد الوارث ، عن شعبة ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ثابت بن الضحاك الانصاري . ح وحدثنا محمد بن رافع ، عن عبد الرزاق ، عن الثوري ، عن خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن ثابت بن الضحاك ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من حلف بملة سوى الإسلام كاذبا متعمدا، فهو كما قال، ومن قتل نفسه بشيء، عذبه الله به في نار جهنم "، هذا حديث سفيان، واما شعبة فحديثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من حلف بملة سوى الإسلام كاذبا، فهو كما قال، ومن ذبح نفسه بشيء، ذبح به يوم القيامة ".حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ كلهم، عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ الأَنْصَارِيِّ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، عَنِ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا، فَهْوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ، عَذَّبَهُ اللَّهُ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ "، هَذَا حَدِيثُ سُفْيَانَ، وَأَمَّا شُعْبَةُ فَحَدِيثُهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الإِسْلَامِ كَاذِبًا، فَهْوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ ذَبَحَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ، ذُبِحَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
شعبہ نے ایوب سے، انہوں نے ابو قلابہ سے اور انہوں نے حضرت ثابت بن ضحاک انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز سفیان ثوری نے بھی خالدحذاء سے، انہوں نے ابو قلابہ سے ارو انہوں نے حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنے قول کے مطابق (اسی مذہب سے) ہو گا اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا، اللہ اس کو جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دے گا۔ یہ سفیان کی بیان کردہ حدیث ہے۔ اور شعبہ کی روایت یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائی (اس روایت میں جان بوجھ کر کے الفاظ نہیں) تو وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے کہا ہے اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کر ڈالا، اسے قیامت کے دن اسی چیز سے ذبح کیا جائے گا۔
امام صاحبؒ مختلف سندوں سے حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سےمرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر اسلام کے سوا کسی مذہب کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ اپنے قول کے مطابق ہوگا، اور جس نے اپنے نفس کو کسی چیز سے ختم کیا، اللہ جہنم کی آگ میں اسی کے ذریعہ سے اسے عذاب سے دوچار کرے گا۔ یہ سفیان کی روایت ہے۔ لیکن شعبہ کی روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی ملّت کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنے قول کے مطابق ہے، اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کر ڈالا، قیامت کے دن اسے اسی چیز سے ذبح کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (298)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 305
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميد جميعا، عن عبد الرزاق ، قال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن ابن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، فقال لرجل ممن يدعى بالإسلام: هذا من اهل النار، فلما حضرنا القتال، قاتل الرجل قتالا شديدا، فاصابته جراحة، فقيل: يا رسول الله، الرجل الذي قلت له آنفا: إنه من اهل النار، فإنه قاتل اليوم قتالا شديدا، وقد مات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلى النار، فكاد بعض المسلمين ان يرتاب، فبينما هم على ذلك، إذ قيل إنه: لم يمت، ولكن به جراحا شديدا، فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح، فقتل نفسه، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: " الله اكبر، اشهد اني عبد الله ورسوله، ثم امر بلالا فنادى في الناس، انه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وان الله يؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد جميعا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ يُدْعَى بِالإِسْلَامِ: هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّار، فَلَمَّا حَضَرْنَا الْقِتَالَ، قَاتَلَ الرَّجُلُ قِتَالًا شَدِيدًا، فَأَصَابَتْهُ جِرَاحَةٌ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ الَّذِي قُلْتَ لَهُ آنِفًا: إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَاتَلَ الْيَوْمَ قِتَالًا شَدِيدًا، وَقَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَى النَّارِ، فَكَادَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَرْتَابَ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ، إِذْ قِيلَ إِنَّهُ: لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنَّ بِهِ جِرَاحًا شَدِيدًا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ اللَّيْلِ لَمْ يَصْبِرْ عَلَى الْجِرَاحِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَنَادَى فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ حنین میں شریک ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے بارے میں، جسے مسلمان کہا جاتا تھا، فرمایا: یہ جہنمیوں میں سے ہے۔ جب ہم لڑائی میں گئے تو اس آدمی نے بڑی زور دار جنگ لڑی جس کی وجہ سے اسے زخم لگ گئے اس پر آپ کی خدمت میں عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! و ہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی فرمایا تھا: وہ جہنمیوں میں سے ہے اس نے تو آج بڑی شدید جنگ لڑی ہے اور وہ مرچکا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کی طرف (جائے گا۔) بعض مسلمان آپ کے اس فرمان کو بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہونے لگے، (کہ ایسا جانثار کیسے دوزخی ہو سکتا ہے۔) لوگ اسی حالت میں تھے کہ بتایا گیا: وہ مرانہیں ہے لیکن اسے شدید زخم لگےہیں۔ جب رات پڑی تو وہ (اپنے) زخموں پر صبر نہ کر سکا، اس نے خود کشی کر لی۔ آپ اس کی اطلا دی گئی تو آپ نے فرمایا: اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں - پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتو انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا: یقیناً اس جان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا جو اسلام پر ہے اور بلاشبہ اللہ برے لوگوں سے بھی اس دین کی تائید کراتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ موجود تھے، تو آپ نے اسلام کے دعویدار ایک شخص کے بارے میں فرمایا: یہ جہنمی ہے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو اس آدمی نے بڑی زوردار جنگ لڑی، جس سے وہ زخمی ہو گیا تو آپ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی فرمایا تھا: وہ دوزخی ہے۔ اس نے تو آج بڑی شدید جنگ لڑی ہے اور وہ مر چکا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کی طرف جائے گا۔ تو قریب تھا کہ بعض مسلمان آپ کے اس فرمان کے بارے میں شک وشبہ میں پڑ جاتے (کہ ایسا جان نثار دوزخی ہوگا) اسی اثنا میں بتلایا گیا کہ وہ مرا نہیں ہے لیکن شدید زخمی ہے۔ جب رات پڑی تو وہ اپنے زخموں پر صبر نہ کر سکا اور خود کشی کر لی، پھر آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا: کبریائی و عظمت کا مستحق اللہ ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں۔ پھر آپ نے بلالؓ کو حکم دیا تو اس نے لوگوں میں اعلان کیا: کہ مسلمان شخص ہی جنت میں داخل ہو سکے گا، اور اللہ اس دین کی تائید کا کام برے لوگوں سے بھی لیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجهاد، باب: ان الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر برقم (2897) وفي القدر، باب: العمل بالخواتيم برقم (6232) انظر ((التحفة)) برقم (13277)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 306
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن القاري ، حي من العرب، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، التقى هو والمشركون فاقتتلوا، فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره، ومال الآخرون إلى عسكرهم، وفي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة، إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقالوا: ما اجزا منا اليوم احد، كما اجزا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إنه من اهل النار "، فقال رجل من القوم: انا صاحبه ابدا، قال: فخرج معه، كلما وقف وقف معه، وإذا اسرع اسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالارض، وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل علي سيفه، فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اشهد انك رسول الله، قال: وما ذاك؟ قال: الرجل الذي ذكرت آنفا انه من اهل النار، فاعظم الناس ذلك، فقلت: انا لكم به، فخرجت في طلبه، حتى جرح جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالارض، وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل عليه، فقتل نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: " إن الرجل ليعمل عمل اهل الجنة فيما يبدو للناس، وهو من اهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس، وهو من اهل الجنة ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، حَيٌّ مِنَ الْعَرَبِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْتَقَى هُوَ وَالْمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ، وَمَالَ الآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً، إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقَالُوا: مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ، كَمَا أَجْزَأَ فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ أَبَدًا، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ، كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَي سَيْفِهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: الرَّجُلُ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنَ أَهْلِ النَّار، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، حَتَّى جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لِيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لِيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لشکر گاہ کی طرف پلٹے او ر فریق ثانی اپنی لشکر گاہ کی طرف مڑا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والوں میں سےایک آدمی تھا جودشمنوں (کی صفوں) سے الگ رہ جانے والوں کو نہ چھوڑتا، ان کا تعاقب کرتا اور انہیں اپنی تلوار کا نشانہ بنا دیتا، لوگوں نے کہا: آج ہم نے میں سے فلاں نے جو کردکھایا کسی اور نے نہیں کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص اہل جہنم میں سے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں مستقل طور پر اس کے ساتھ رہوں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ آدمی اس کے ہمراہ نکلا۔ جہاں وہ ٹھہرتا وہیں یہ ٹھہر جاتا اور جب وہ اپنی رفتار تیز کرتا تو اس کے ساتھ یہ بھی تیز چل پڑتا۔ (آخر کار) وہ آدمی شدید زخمی ہو گیا، اس نے جلد مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ (تلوار کا دستہ) زمیں پر رکھا اور اس کی دھار اپنی چھاتی کے درمیان رکھی، پھر اپنی تلوار سے اپنا پورا وزن ڈال کر خودکشی کر لی۔ وہ (پیچھا کرنے والا) آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا ہوا؟ تو اس نے کہا، وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی بتایا تھا کہ و ہ دوزخی ہے اور لوگوں سے اسے غیر معمولی بات سمجھا تھا۔ اس پر میں نے (لوگوں سے) کہا: میں تمہارے لیے اس کا پتہ لگاؤں لگا۔ میں اس کے پیچھے نکلا یہاں تک کہ وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس نے جلدی مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ (دستہ) زمین پر اور اس کی دھار چھاتی کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا پورا بوجھ ڈال دیا اور خود کو مار ڈالا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی جنتیون کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ (انجام کار) وہ جنتی ہوتا ہے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کی طرف پلٹے اور فریقِ ثانی اپنے لشکر کی طرف جھکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جو دشمن سے الگ ہونے والے کا تعاقب کرتا اور اپنی تلوار سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا، لوگوں نے کہا، آج جس قدر اس نے کام کیا ہے (مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا) اس قدر کسی نے نفع نہیں پہنچایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باوجود یہ دوزخی ہے۔ تو لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں ہر وقت اس کے ساتھ رہوں گا۔ تو وہ اس کے ہمراہ نکلا، جہاں وہ ٹھہرتا وہیں وہ ٹھہر جاتا اور جب وہ تیز رفتاری اختیار کرتا تو وہ بھی تیز چل پڑتا۔ وہ آدمی شدید زخمی ہو گیا اس نے جلد موت چاہی اور اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھا اور اس کی دھار اپنی چھاتی پر پھر اپنی تلوار پر پورا وزن ڈال کر خود کشی کر لی، تو دوسرا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میں آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں! آپ نے پوچھا: کیا سبب ہے؟ تو اس نے کہا: وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی بتایا تھا: کہ وہ دوزخی ہے اور لوگوں پر یہ بات گراں گزری تھی تو میں نے لوگوں کو کہا تھا میں اس کے انجام کو جاننے کا ذمہ لیتا ہوں۔ میں اس کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ وہ شدید زخمی ہو گیا، تو اس نے جلد موت چاہی، اس کے لیے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھا اور اس کی دھار اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھی پھر اس نے بوجھ ڈال دیا اور خود کشی کر لی۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی جنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگوں کو نظر آتا ہے یعنی ظاہری اعتبار سے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، اور ایک دوسرا آدمی لوگوں کو نظر آنے کے اعتبار سے دوزخیوں والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه)) في المغازی، باب: غزوة برقم (3966) وفي الجهاد، باب: لا يقول فلان شهيد برقم (2742) والمولف ((مسلم)) في القدر، باب: كيفية الخلق الآدمي في بطن امه، وكتابة رزقه واجله وعمله، وشقاوته وسعادته مختصراً برقم (6683) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (4780 و 4287)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 307
Save to word اعراب
حدثني محمد بن رافع ، حدثنا الزبيري وهو محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا شيبان ، قال: سمعت الحسن ، يقول: إن رجلا ممن كان قبلكم، خرجت به قرحة، فلما آذته، انتزع سهما من كنانته فنكاها، فلم يرقإ الدم حتى مات، قال: " ربكم، قد حرمت عليه الجنة "، ثم مد يده إلى المسجد، فقال: إي والله لقد حدثني بهذا الحديث جندب ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المسجد.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرِيُّ وَهُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، خَرَجَتْ بِهِ قُرْحَةٌ، فَلَمَّا آذَتْهُ، انْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ فَنَكَأَهَا، فَلَمْ يَرْقإِ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ، قَالَ: " رَبُّكُمْ، قَدْ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "، ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ جُنْدَبٌ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ.
شیبان نے بیان کیا کہ میں نےحسن (بصری) کو کہتے ہوئے سنا: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی تھا، اسے پھوڑا نکلا، جب اس نے اسے اذیت دی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا او راس پھوڑے کو چیر دیا، خون بند نہ ہو ا، حتی کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔ (کیونکہ اس نے خودکشی کےلیے ایسا کیا تھا۔) پھر حسن نے مسجد کی طرف سے اپناہاتھ اونچا کیا او رکہا: ہاں، اللہ کی قسم! یہ حدیث مجھے جندب رضی اللہ عنہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کرتے ہوئے) اسی مسجد میں سنائی تھی۔
حسنؒ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اگلے لوگوں میں ایک آدمی تھا اسے پھوڑا نکلا، جب اس نے اسے اذیت دی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور اس پھوڑے کو چیرا دیا جس سے خون نکلنا بند نہ ہوا اور وہ مر گیا۔ تمھارے رب نے فرمایا: میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ پھر حسن نے مسجد کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا: ہاں! اللہ کی قسم! یہ حدیث مجھے جندب ؓ نے اسی مسجد میں سنائی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في الجنائز، باب: ما جاء في قاتل النفس برقم (1298) وفي الانبياء، باب: ما ذكر عن بني اسرائيل برقم (3726) انظر ((التحفة)) برقم (3254)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 308
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت الحسن ، يقول: حدثنا جندب بن عبد الله البجلي في هذا المسجد، فما نسينا وما نخشى ان يكون جندب، كذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خرج برجل فيمن كان قبلكم خراج "، فذكر نحوه.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبيِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا جُنْدَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، فَمَا نَسِينَا وَمَا نَخْشَى أَنْ يَكُونَ جُنْدَبٌ، كَذَبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَجَ بِرَجُلٍ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ خُرَاجٌ "، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
(شیبان کے بجائے) جریر نے بیان کیا کہ میں نے حسن کو کہتے ہوئے سنا: ہمیں جندب بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی مسجد میں یہ حدیث سنائی، نہ ہم بھولے ہیں اور نہ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ جندب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے۔ جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو پھوڑا نکلا .... پھر اسی (سابقہ حدیث) جیسی حدیث بیان کی۔
حسنؒ بیان کرتے ہیں: کہ ہمیں جندب بن عبداللہ بجلی ؓ نے اس مسجد میں حدیث سنائی، نہ ہم بھولے ہیں اور نہ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ جندب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی طرف سے بات منسوب کی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک آدمی کے پھوڑا نکلا۔ پھر اوپر والی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (303)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
48. باب غِلَظِ تَحْرِيمِ الْغُلُولِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ:
48. باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے کی حرمت اور یہ کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
Chapter: Emphatic prohibition against stealing from the spoils of war; and that no one will enter paradise except the believers
حدیث نمبر: 309
Save to word اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثني سماك الحنفي ابو زميل ، قال: حدثني عبد الله بن عباس ، قال: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم خيبر، اقبل نفر من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: فلان شهيد، فلان شهيد، حتى مروا على رجل، فقالوا: فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كلا إني رايته في النار في بردة غلها او عباءة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابن الخطاب، اذهب فناد في الناس، انه لا يدخل الجنة، إلا المؤمنون، قال: فخرجت، فناديت، " الا إنه لا يدخل الجنة، إلا المؤمنون ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَلَّا إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَنَادَيْتُ، " أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ".
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: خیبر (کی جنگ) کا دن تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے اور کہنے لگے: فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے: وہ شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا (چوری کرنے) کی نبا پر آگ میں دیکھا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خطاب کے بیتے! جاکر لوگوں میں ا علان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا: میں باہر نکلا اور (لوگوں میں) اعلان کیا: متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت سنائی کہ جب خیبر کا دن تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی آئے اور کہنے لگے: فلاں شہید اور فلاں شہید ہوا، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا۔ تو کہنے لگے: وہ شہید ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہر گز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عباء کی خیانت کرنے کی بناء پر آگ میں دیکھا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! لوگوں میں جا کر اعلان کر دوکہ جنّت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔ تو میں نے نکل کر(لوگوں میں) اعلان کیا: خبردار ہو جاؤ! جنّت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في السير، باب: ما جاء في الغلول، باختصار، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب برقم (1574) انظر ((التحفة)) برقم (10497)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 310
Save to word اعراب
حدثني ابو الطاهر ، قال: اخبرني ابن وهب ، عن مالك بن انس ، عن ثور بن زيد الدؤلي ، عن سالم ابي الغيث مولى ابن مطيع ، عن ابي هريرة . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد وهذا حديثه، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد ، عن ثور ، عن ابي الغيث ، عن ابي هريرة ، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، ففتح الله علينا، فلم نغنم ذهبا، ولا ورقا، غنمنا المتاع، والطعام، والثياب، ثم انطلقنا إلى الوادي، ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد له وهبه، له رجل من جذام يدعى رفاعة بن زيد من بني الضبيب، فلما نزلنا الوادي، قام عبد رسول الله صلى الله عليه وسلم يحل رحله، فرمي بسهم فكان فيه حتفه، فقلنا: هنيئا له الشهادة يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كلا، والذي نفس محمد بيده إن الشملة لتلتهب عليه نارا، اخذها من الغنائم يوم خيبر لم تصبها المقاسم، قال: ففزع الناس، فجاء رجل بشراك، او شراكين، فقال: يا رسول الله، اصبت يوم خيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " شراك من نار، او شراكان من نار ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدُّؤَلِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثُهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا، وَلَا وَرِقًا، غَنِمْنَا الْمَتَاعَ، وَالطَّعَامَ، وَالثِّيَابَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الْوَادِي، وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ لَهُ وَهَبَهُ، لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُذَامٍ يُدْعَى رِفَاعَةَ بْنَ زَيْدٍ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ، فَلَمَّا نَزَلْنَا الْوَادِي، قَامَ عَبْدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُلُّ رَحْلَهُ، فَرُمِيَ بِسَهْمٍ فَكَانَ فِيهِ حَتْفُهُ، فَقُلْنَا: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا، أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ، قَالَ: فَفَزِعَ النَّاسُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ، أَوْ شِرَاكَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شِرَاكٌ مِنَ نَارٍ، أَوْ شِرَاكَانِ مِنَ نَارٍ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر کی طرف نکلے، اللہ نے ہمیں فتح عنایت فرمائی، غنیمت میں ہمیں سنا یا چاندی نہ ملا، غنیمت میں سامان، غلہ اور کپڑے ملے، پھر ہم وادی (القری) کی طر ف چل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلے کے ایک آدمی نے، جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا اور (جذام کی شاخ) بنو صبیب سے اس کا تعلق تھا، آپ کو ہبہ کیا تھا۔ جب ہم نے اس وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ (یہ) غلام آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اسے (دور سے) تیر کا نشانہ بنایا گیا اور اسی اس کی موت واقع ہو گئی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے شہادت مبارک ہو۔ آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اوڑھنے کی وہ چادر اس پر آگ کے شعلے برسا رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن اس کے تقسیم ہونے سے پہلے اٹھائی تھی۔ یہ سن کر لوگ خوف زدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک یا دوتسمے لے آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! خیبر کے دن میں نے لیے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر گئے، اللہ نے فتح عنایت فرمائی، ہمیں غنیمت میں سونا یا چاندی نہ ملا، ہمیں غنیمت میں سامان غلہ اور کپڑے حاصل ہوئے۔ پھر ایک وادی کی طرف چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلہ کے ایک آدمی نے آپ کو ہبہ کیا تھا، جو بنو ضبیب سے تھا، جسے رفاعہ بن زید کہتے تھے۔ جب ہم نے وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام (مدعم نامی) آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اس کو ایک تیر مارا گیا جو اس کی موت کا باعث بنا۔ توہم نے کہا: اسے شہادت مبارک ہو، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! وہ شملہ جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اٹھائی تھی، اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر لوگ خوفزدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے یہ خیبر کے دن ملے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کا ایک تسمہ یا آگ کے دوتسمے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازی، باب: غزوة خيبر برقم (3993) وفي الايمان والنذور، باب: هل يدخل في الايمان والنذور الأرض والغنم والزروع والا متعة برقم (6329) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: في تعظيم الغلول برقم (2711) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12916)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
49. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ قَاتِلَ نَفْسِهِ لاَ يَكْفُرُ:
49. باب: خودکشی کرنے والے کے کافر نہ ہونے کی دلیل۔
Chapter: The evidence that the one who kills himself is not considered a disbeliever
حدیث نمبر: 311
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن سليمان، قال ابو بكر: حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن حجاج الصواف ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، ان الطفيل بن عمرو الدوسي، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هل لك في حصن حصين ومنعة؟ قال: حصن كان لدوس في الجاهلية، فابى ذلك النبي صلى الله عليه وسلم للذي ذخر الله للانصار، فلما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، هاجر إليه الطفيل بن عمرو، وهاجر معه رجل من قومه، فاجتووا المدينة ، فمرض فجزع فاخذ مشاقص له فقطع بها براجمه، فشخبت يداه حتى مات، فرآه الطفيل بن عمر وفي منامه فرآه، وهيئته حسنة، ورآه مغطيا يديه، فقال له: ما صنع بك ربك؟ فقال: غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لي اراك مغطيا يديك؟ قال: قيل لي: لن نصلح منك ما افسدت، فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم وليديه، فاغفر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي حِصْنٍ حَصِينٍ وَمَنْعَةٍ؟ قَالَ: حِصْنٌ كَانَ لِدَوْسٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَبَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي ذَخَرَ اللَّهُ لِلأَنْصَارِ، فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَة َ، فَمَرِضَ فَجَزِعَ فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ، فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ، فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍ وَفِي مَنَامِهِ فَرَآهُ، وَهَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ، وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ، فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ وَلِيَدَيْهِ، فَاغْفِرْ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ایک مضبوط قلعے اور تحفظ کی ضرورت ہے؟ (روایت کرنےوالے نے کہا: یہ ایک قلعہ تھا جو جاہلیت کے دور مین بنو دوس کی ملکیت تھا) آپ نے اس (کو قبول کرنے) سے انکار کر دیا۔ کیونکہ یہ سعادت اللہ نے انصار کے حصے میں رکھی تھی، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو طفیل بن عمرو بھی ہجرت کر کے آپ کے پاس آ گئے، ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی، انہوں نے مدینہ کی آب و ہوا ناموافق پائی تو وہ آدمی بیمار ہوا اور گھبرا گیا، اس نے اپنے چوڑے پھل والے تیر لیے اور ان سے اپنی انگلیوں کے اندرونی طرف کے جوڑ کاٹ ڈالے، اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہا حتی کہ وہ مر گیا۔طفیل بن عمرو نے اسے خواب میں دیکھا، انہوں نے دیکھا کہ اس کی حالت اچھی تھی اور (یہ بھی) دیکھا کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپنے ہوئے تھے۔ طفیل نے (عالم خواب میں) اس سے کہا: تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے کہا: اس نے اپنے نبی کی طرف میری ہجرت کے سبب مجھے بخش دیا۔ انہوں نے پوچھا: میں تمہیں دونوں ہاتھ ڈھانپے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا: مجھ سے کہا گیا: (اپنا) جو کچھ تم نے خود ہی خراب کیا ہے، ہم اسے درست نہیں کریں گے۔ طفیل نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھ کو بھی بخش دے۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو دوسیؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ ایک مضبوط قلعہ اور محافظ دستہ کی خواہش رکھتے ہیں۔ تو آپؐ نے انکار فرمایا، کیونکہ یہ سعادت اللہ نے انصار کے حصہ میں رکھی تھی۔ تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔ طفیل بن عمروؓ بھی ہجرت کرکے آپ کے پاس آگیا۔ اس کے ساتھ اس کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی، انھوں نے مدینہ کی آب و ہوا نا موافق پائی تو وہ آدمی بیمار ہو گیا اور گھبرا گیا، اس نے اپنا لمبا چوڑا تیر لیا اور اپنی انگلیوں کے پور کاٹ ڈالے، دونوں ہاتھوں کا خون بہہ گیا اور وہ اس کی وجہ سے مر گیا۔ طفیل بن عمروؓ نے اسے خواب میں دیکھا: اس کی ہیئت و کیفیت اچھی دیکھی اور اسے دیکھا کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپے ہوئے ہیں۔ طفیلؓ نے اس سے پوچھا: تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے جواب دیا: مجھے بخش دیا، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر گھر بار چھوڑا تھا۔ تو پوچھا: تم نے دونوں ہاتھ کیوں چھپائے ہوئے ہیں؟ اس نے کہا: مجھے بتایا گیا ہے کہ جو چیز تو نے خود خراب کی ہے، ہم اس کو درست نہیں کریں گے۔ تو طفیلؓ نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا یا تو آپؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی معاف فرما (ان کو بھی درست کر دے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2682)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
50. باب فِي الرِّيحِ الَّتِي تَكُونُ قُرْبَ الْقِيَامَةِ تَقْبِضُ مَنْ فِي قَلْبِهِ شيء مِنَ الإِيمَانِ:
50. باب: قرب قیامت میں ہوا کا ان لوگوں کو اٹھا لینا جن کے دلوں میں تھوڑا بھی ایمان ہو گا۔
Chapter: Regarding the wind which will come just before the resurrection and take the soul of anyone who has any fath in his heart
حدیث نمبر: 312
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، وابو علقمة الفروي ، قالا: حدثنا صفوان بن سليم ، عن عبد الله بن سلمان ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله يبعث ريحا من اليمن، الين من الحرير، فلا تدع احدا في قلبه، قال ابو علقمة: مثقال حبة، وقال عبد العزيز: مثقال ذرة من إيمان، إلا قبضته ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَبُو عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ رِيحًا مِنْ الْيَمَنِ، أَلْيَنَ مِنَ الْحَرِيرِ، فَلَا تَدَعُ أَحَدًا فِي قَلْبِهِ، قَالَ أَبُو عَلْقَمَةَ: مِثْقَالُ حَبَّةٍ، وقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ إِيمَانٍ، إِلَّا قَبَضَتْهُ ".
عبدالعزیز بن محمد اور ابو علقمہ فروی نے کہا: ہمیں صفوان بن سلیم نے عبد اللہ بن سلمان کے واسطے سے ان کےوالد (سلمان) سے حدیث سنائی، انہو ں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ یمن سے ایک ہوا بھیجے گا جو ریشم سےزیادہ نرم ہو گی اور کسی ایسے شخص کو نہ چھوڑے گی جس کے دل میں (ابو علقمہ نے کہا: ایک دانے کے برابر اور عبد العزیز نے کہا: ایک ذرے کے برابر بھی) ایمان ہو گا مگر اس کی روح قبض کر لے گی۔ (ایک ذرہ بھی ہو لیکن ایمان ہوتو نفع بخش ہے۔)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (13468)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    18    19    20    21    22    23    24    25    26    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.