صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
48. باب غِلَظِ تَحْرِيمِ الْغُلُولِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ:
باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے کی حرمت اور یہ کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 310
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدُّؤَلِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثُهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا، وَلَا وَرِقًا، غَنِمْنَا الْمَتَاعَ، وَالطَّعَامَ، وَالثِّيَابَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الْوَادِي، وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ لَهُ وَهَبَهُ، لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُذَامٍ يُدْعَى رِفَاعَةَ بْنَ زَيْدٍ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ، فَلَمَّا نَزَلْنَا الْوَادِي، قَامَ عَبْدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُلُّ رَحْلَهُ، فَرُمِيَ بِسَهْمٍ فَكَانَ فِيهِ حَتْفُهُ، فَقُلْنَا: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا، أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ، قَالَ: فَفَزِعَ النَّاسُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ، أَوْ شِرَاكَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شِرَاكٌ مِنَ نَارٍ، أَوْ شِرَاكَانِ مِنَ نَارٍ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر کی طرف نکلے، اللہ نے ہمیں فتح عنایت فرمائی، غنیمت میں ہمیں سنا یا چاندی نہ ملا، غنیمت میں سامان، غلہ اور کپڑے ملے، پھر ہم وادی (القری) کی طر ف چل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلے کے ایک آدمی نے، جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا اور (جذام کی شاخ) بنو صبیب سے اس کا تعلق تھا، آپ کو ہبہ کیا تھا۔ جب ہم نے اس وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ (یہ) غلام آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اسے (دور سے) تیر کا نشانہ بنایا گیا اور اسی اس کی موت واقع ہو گئی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے شہادت مبارک ہو۔ آپ نے فرمایا: ” ہرگز نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اوڑھنے کی وہ چادر اس پر آگ کے شعلے برسا رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن اس کے تقسیم ہونے سے پہلے اٹھائی تھی۔“ یہ سن کر لوگ خوف زدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک یا دوتسمے لے آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! خیبر کے دن میں نے لیے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر گئے، اللہ نے فتح عنایت فرمائی، ہمیں غنیمت میں سونا یا چاندی نہ ملا، ہمیں غنیمت میں سامان غلہ اور کپڑے حاصل ہوئے۔ پھر ایک وادی کی طرف چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلہ کے ایک آدمی نے آپ کو ہبہ کیا تھا، جو بنو ضبیب سے تھا، جسے رفاعہ بن زید کہتے تھے۔ جب ہم نے وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام (مدعم نامی) آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اس کو ایک تیر مارا گیا جو اس کی موت کا باعث بنا۔ توہم نے کہا: اسے شہادت مبارک ہو، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! وہ شملہ جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اٹھائی تھی، اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔“ یہ سن کر لوگ خوفزدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے یہ خیبر کے دن ملے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ کا ایک تسمہ یا آگ کے دوتسمے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازی، باب: غزوة خيبر برقم (3993) وفي الايمان والنذور، باب: هل يدخل في الايمان والنذور الأرض والغنم والزروع والا متعة برقم (6329) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: في تعظيم الغلول برقم (2711) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12916)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 310 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 310
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَحُلُّ رَحْلَهُ:
آپ کا پالان یا کجاوا کھول رہا تھا۔
(2)
حَتْف:
موت۔
(3)
هَنِيئًا لَهُ:
اسے مبارک ہو،
اس کے لیے مسرت اور خوش گواری کا باعث ہو۔
(4)
شِّمْلَةٌ:
کھلی اوڑھنے کی چادری۔
(5)
تَلْتَهِبُ:
بھڑک رہی ہے،
شعلہ زن ہے۔
(6)
غَنَائِم:
غنیمت کی جمع،
دشمن سے جنگ کے وقت حاصل ہونے والا مال۔
(7)
مَقَاسِم:
مقسمٌ کی جمع ہے،
جو تقسیم یا بانٹنے کے معنی میں ہے۔
(8)
شِرَاكٌ:
چمڑے کا تسمہ۔
فوائد ومسائل:
تمام لوگوں کی مشترکہ چیز میں سے کسی ایک کا ان کی اجازت کے بغیر کچھ اٹھا لینا اگرچہ وہ معمولی چیز ہو انتہائی خوفناک جرم ہے،
جس کی آج کل لوگوں کو بالکل پرواہ نہیں ہے۔
مفاد عامہ کی چیزوں یا مفاد عامہ کی جگہوں پر قبضہ کرنے کی وبا عام ہوچکی ہے،
سیلاب،
زلزلہ وغیرہ آفتوں کے سلسلہ میں حاصل ہونے والی اشیاء کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر لیا جاتا ہے،
حالانکہ یہ حرکت کرنے والا شہادت کے عظیم رتبہ سے بھی محروم ہوجاتا ہے،
اس لیے ان کاموں سے بچنا ضروری ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 310
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4234
´مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے`
«. . . افْتَتَحْنَا خَيْبَرَ وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلَا فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ الْعَبْدَ، فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا"، فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ . . .»
”. . . جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4234]
� لغوی توضیح:
«الْحَوَئِط» جمع ہے «حَائِط» کی، معنی ہے باغات۔
«وَادِي الْقُري» مدینہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
«سَهْمٌ عَائِرٌ» جس تیر کے مارنے والے کا پتہ نہ چلے۔
«شِرَاك» تسمہ۔
فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت خائن کے لیے دنیا و آخرت میں آگ اور عار ہے۔ [حسن صحيح: ابن ماجه: 2850، مسند احمد: 316/5، دارمي: 2487]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے: خیانت حرام ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ [نيل الأوطار 60/5]
امام نووی رحمہ اللہ نے خیانت کے کبیرہ گناہ ہونے پر اجماع نقل فرمایا ہے۔ [شرح مسلم للنوي 456/6]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 74
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 586
´چوری کرنا حرام ہے`
«. . . عن أبى هريرة قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر فلم نغنم ذهبا ولا ورقا إلا الأموال المتاع والثياب . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر والے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو ہمیں مال غنیمت میں اموال (زمینیں)، اسباب اور کپڑوں کے سوا نہ سونا ملا اور نہ چاندی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 586]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6707، ومسلم 115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔
➋ غزوہ خیبر سات (7) ہجری میں ہوا تھا۔
➌ بعض راویوں نے اس روایت میں غزوہ خیبر کے بجائے غزوہ حنین کا لفظ ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
➍ چوری کرنا حرام ہے بالخصوص مال غنیمت میں سے چوری کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
➎ دلیل (قرآن و حدیث) کے بغیر کسی خاص شخص کے بارے میں جنتی ہونے کی گواہی دینا غلط ہے۔
➏ ضرورت کے وقت قسم کھانا جائز ہے بلکہ بغیر ضرورت کے بھی سچی قسم کھانا جائز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی بات کی تاکید مقصود ہوتی ہے۔
➐ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ رشوت وغیرہ حرام امور کا شک و شبہ نہ ہو۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 141
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3858
´مال کی نذر مانی جائے تو کیا زمین بھی اس میں شامل ہو گی؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں مال ۱؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3858]
اردو حاشہ:
(1) غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کو غنیمت میں زمینں تو قطعاً ملی تھیں جبکہ اس حدیث میں زمین کا صراحتاً ذکر نہیں بلکہ لفظ ”اموال“ ذکر ہے۔ لازمی بات ہے کہ اموال سے مراد زمین ہی ہوگی اور یہی باب کا مقصود ہے کہ اگر مال کی نذر مانے تو زمین بھی اس میں داخل ہوگی۔ سابقہ روایات جن میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نذر کا ذکر ہے‘ وہ بھی اس مقصود پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں مال صدقہ کرنے ہی کی نذر تھی‘ بعد میں حضرت کعب نے خیبر کی زمین کو اس سے مستثنیٰ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مال کی نذر میں زمین بھی شامل تھی۔
(2) ”جنت مبارک ہو“ بظاہر کیونکہ وہ سفر جہاد کے دوران میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے کسی کافر کے تیر سے شہید ہوا تھا۔
(3) ”سبب بن سکتے ہیں“ اگر خیانت کے ساتھ حاصل کیے جائیں اور بیت المال میں جمع نہ کرائے جائیں‘ یعنی معمولی اشیاء میں خیانت عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3858
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2711
´مال غنیمت میں چوری بڑا گناہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے سال نکلے، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا، اتنے میں اس کو ایک تیر آ لگا اور وہ مر گیا، لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت کی مبارک بادی ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2711]
فوائد ومسائل:
ملی امانتوں کا معاملہ انتہائی سخت ہے۔
بلا اجازت امیر یا بلااستحقاق کوئی معمولی چیز بھی اٹھا لینا بہت بڑے عقاب کا باعث ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2711
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4234
4234. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے خیبر فتح کیا تو ہمیں مال غنیمت میں سونا، چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے، اونٹ، سامان اور باغات ملے تھے۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وادی القری میں آئے جبکہ آپ کے ساتھ ایک مِدعم نامی غلام بھی تھا، جو بنو ضباب کے ایک شخص نے آپ کو بطور نذرانہ پیش کیا تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک کسی نا معلوم سمت سے ایک تیر آ کر اسے لگا (اور وہ غلام تیر لگنے سے مر گیا) تو لوگوں نے کہا: اسے شہادت مبارک ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلکہ ایسا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو چادر اس نے خیبر کے روز تقسیم غنیمت سے پہلے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔“ نبی ﷺ کی یہ بات سن کر ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے بھی یہ اٹھا لیے تھے۔ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4234]
حدیث حاشیہ:
روایت میں فتح خیبر کا ذکر ہے اسی لیے اسے یہاں درج کیا گیا اس سے امانت میں خیانت کی بھی انتہائی مذمت ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4234
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6707
6707. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم نے سونے اور چاندی کی غنیمت نہ پائی بلکہ دیگر اموال یعنی چوپائے کپڑے اور سامان وغیرہ حاصل کیا۔ قبیلہ بنو ضہیب کے ایک آدمی نے جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کو ایک غلام کا ہدیہ پیش کیا جسے مدعم کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے وادی القری بھیجا۔ وادی القری پہنچ کر وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اس کی پشت پر اچانک ایک تیر لگا جس کے مارنے والے کا علم نہ ہو سکا۔ اس تیر نے مدعم کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت سے چرا لیا تھا اس پر آگ بن کر بھڑک رہا ہے۔“ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6707]
حدیث حاشیہ:
روایت میں اونٹ بکریوں وغیرہ کو بھی لفظ اموال سے تعبیر کیا گیا ہے اسی سے باب کا مطلب نکلا اور یہ بھی نکلا کہ خیانت اور چوری ایسے گناہ ہیں جن کی مجاہد کےلیے بھی بخشش نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6707
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4234
4234. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے خیبر فتح کیا تو ہمیں مال غنیمت میں سونا، چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے، اونٹ، سامان اور باغات ملے تھے۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وادی القری میں آئے جبکہ آپ کے ساتھ ایک مِدعم نامی غلام بھی تھا، جو بنو ضباب کے ایک شخص نے آپ کو بطور نذرانہ پیش کیا تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک کسی نا معلوم سمت سے ایک تیر آ کر اسے لگا (اور وہ غلام تیر لگنے سے مر گیا) تو لوگوں نے کہا: اسے شہادت مبارک ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلکہ ایسا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو چادر اس نے خیبر کے روز تقسیم غنیمت سے پہلے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔“ نبی ﷺ کی یہ بات سن کر ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے بھی یہ اٹھا لیے تھے۔ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4234]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فتح خیبر میں شریک نہ تھے بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے خیبر فتح کیا کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ خیبر کے بعد آئے تھے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب مسلمانوں نے خیبر فتح کرلیا تھا۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3136۔
)
2۔
اس طرح کا ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامان کا ایک محافظ جسے کرکرہ کہاجاتا تھا وہ مرگیا تو آپ نے اس کے متعلق فرمایا:
”وہ کوٹ کی خیانت کے باعث جہنم میں ہوگا۔
“ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2827۔
)
3۔
اس واقعے کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو کرکرہ نامی غلام ہوذہ بن علی نے نذرانہ پیش کیا تھا جبکہ مذکورہ حدیث میں مدعم حضرت رفاع نے آپ کو ہدیہ دیا تھا، لہذا یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3074۔
)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6707
6707. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم نے سونے اور چاندی کی غنیمت نہ پائی بلکہ دیگر اموال یعنی چوپائے کپڑے اور سامان وغیرہ حاصل کیا۔ قبیلہ بنو ضہیب کے ایک آدمی نے جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کو ایک غلام کا ہدیہ پیش کیا جسے مدعم کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے وادی القری بھیجا۔ وادی القری پہنچ کر وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اس کی پشت پر اچانک ایک تیر لگا جس کے مارنے والے کا علم نہ ہو سکا۔ اس تیر نے مدعم کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت سے چرا لیا تھا اس پر آگ بن کر بھڑک رہا ہے۔“ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6707]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ مال کا اطلاق کپڑوں اور سامان پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں وہاں مال غنیمت کے طور پر سونا چاندی نہیں بلکہ اموال، یعنی مویشی، کپڑے اور دیگر سامان ملا تھا، پھر انہی اموال میں سے وہ کمبل تھا جسے مدعم نے چوری کر لیا تھا اور وہ چپل کے تسمے بھی انہی اموال کا حصہ تھے جو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وعید سن کر پیش کیے تھے۔
(2)
دراصل مال کے اطلاق میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مال کا اطلاق صرف اس مملوکہ چیز پر ہوتا ہے جس میں زکاۃ فرض ہے جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی امر کی طرف ہے کہ ہر چیز مملوکہ کو مال کہا جاتا ہے، اس کے متعلق نذر بھی مانی جا سکتی ہے، پھر آپ نے مختلف احادیث پیش کی ہیں جن میں ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6707