حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اسی شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کردے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى حبيبة الطائي
حدثنا وكيع , حدثنا يونس بن ابي إسحاق , عن ابي السفر , قال: كسر رجل من قريش سن رجل من الانصار , فاستعدى عليه معاوية , فقال القرشي: إن هذا دق سني , قال معاوية: كلا , إنا سنرضيه , قال: فلما الح عليه الانصاري , قال معاوية: شانك بصاحبك , وابو الدرداء جالس , فقال ابو الدرداء : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ما من مسلم يصاب بشيء في جسده , فيتصدق به , إلا رفعه الله به درجة , وحط عنه بها خطيئة" , قال: فقال الانصاري: اانت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم , سمعته اذناي , ووعاه قلبي , يعني: فعفا عنه .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ أَبِي السَّفَرِ , قَالَ: كَسَرَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ سِنَّ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ , فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ مُعَاوِيَةَ , فَقَالَ الْقُرَشِيُّ: إِنَّ هَذَا دَقَّ سِنِّي , قَالَ مُعَاوِيَةُ: كَلَّا , إِنَّا سَنُرْضِيهِ , قَالَ: فَلَمَّا أَلَحَّ عَلَيْهِ الْأَنْصَارِيُّ , قَالَ مُعَاوِيَةُ: شَأْنَكَ بِصَاحِبِكَ , وَأَبُو الدَّرْدَاءِ جَالِسٌ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِشَيْءٍ فِي جَسَدِهِ , فَيَتَصَدَّقُ بِهِ , إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً , وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً" , قَالَ: فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ , سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ , وَوَعَاهُ قَلْبِي , يَعْنِي: فَعَفَا عَنْهُ .
ابو سفر کہتے ہیں کہ قریش کے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کا دانت توڑ ڈالا اس نے حضرت معاویہ سے قصاص کی درخواست کی وہ قریشی کہنے لگا کہ اس نے میرا دانت توڑا تھا حضرت معاویہ نے فرمایا ہرگز نہیں ہم اسے راضی کریں گے جب اس انصار نے بڑے اصرار سے اپنی بات دہرائی تو حضرت معاویہ نے فرمایا تم اپنے ساتھی سے اپنا بدلہ لے لو، اس مجلس میں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس مسلمان کو اس کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صدقہ کی نیت کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس انصار نے پوچھا کہ کیا آپ نے خود نبی سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میرے کانوں نے اس حدیث کو سنا ہے اور میرے دل نے اسے مخفوظ کیا ہے، چنانچہ اس نے اس قریشی کو معاف کردیا۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو السفر لم يسمع من أبى الدرداء
حدثنا إسماعيل , حدثنا داود , وابن ابي عدي , عن داود , عن الشعبي , عن علقمة , قال: لقيت ابا الدرداء , قال ابن ابي عدي في حديثه: فقدمت الشام , فلقيت ابا الدرداء , قال: ممن انت؟ قلت: من اهل الكوفة , قال: هل تقرا علي قراءة ابن مسعود؟ قلت: نعم , قال: فاقرا: والليل إذا يغشى , قلت: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , قال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , قال: احسبه قال: فضحك.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا دَاوُدُ , وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ دَاوُدَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَلْقَمَةَ , قَالَ: لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ فِي حَدِيثِهِ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ , فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , قَالَ: هَلْ تَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ ابْنِ مَسْعُودٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: فَاقْرَأْ: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , قُلْتُ: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: فَضَحِكَ.
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام پہنچا اور وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں، انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، غالباً وہ اس پر ہنسے بھی تھے۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس سے قیامت کے دن جہنم کی آگ کو دور کرے۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث وشهر بن حوشب
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کو قئی آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا، پھر ان کے پاس پانی لایا گیا تو انہوں کے وضو کرلیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد أخطأ فيه معمر
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا شعبة , عن مغيرة , عن إبراهيم , عن علقمة , انه قدم الشام , فدخل مسجد دمشق , فصلى فيه ركعتين , وقال: اللهم ارزقني جليسا صالحا , قال: فجاء , فجلس إلى ابي الدرداء , فقال له ابو الدرداء : ممن انت؟ قال: من اهل الكوفة , قال: كيف سمعت ابن ام عبد يقرا: والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى سورة الليل آية 1 - 2 , قال علقمة: " والذكر والانثى" , فقال ابو الدرداء: لقد سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فما زال هؤلاء حتى شككوني , ثم قال: الم يكن فيكم صاحب الوساد , وصاحب السر الذي لا يعلمه احد غيره , والذي اجير من الشيطان على لسان النبي صلى الله عليه وسلم؟! صاحب الوساد: ابن مسعود , وصاحب السر: حذيفة , والذي اجير من الشيطان: عمار .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مُغِيرَةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , أَنَّهُ قَدِمَ الشَّامَ , فَدَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَصَلَّى فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , وَقَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا صَالِحًا , قَالَ: فَجَاءَ , فَجَلَسَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ يَقْرَأُ: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى سورة الليل آية 1 - 2 , قَالَ عَلْقَمَةُ: " وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: لَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَمَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى شَكَّكُونِي , ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَكُنْ فِيكُمْ صَاحِبُ الْوِسَادِ , وَصَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ غَيْرُهُ , وَالَّذِي أُجِيرَ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! صَاحِبُ الْوِسَادِ: ابْنُ مَسْعُودٍ , وَصَاحِبُ السِّرِّ: حُذَيْفَةُ , وَالَّذِي أُجِيرَ مِنَ الشَّيْطَانِ: عَمَّارٌ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام دمشق کی جامع میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے اس پر اتنی بحث کی تھی کہ مجھے شک میں مبتلا کردیا تھا، پھر فرمایا کیا تم میں " تکیے والے " ایسے رازوں کو جاننے والے جنہیں کوئی نہ جانتا ہو اور جنہیں نبی کی زبانی شیطان سے مخفوظ قرار دیا گیا تھا " نہیں ہیں؟ تکیے والے تو ابن مسعود ہیں، رازوں کو جاننے والے حذیفہ ہیں اور شیطان سے محفوظ عمار ہیں۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔