بنو عبد الاشہل کی ایک خاتون سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ ِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ مسجد کی طرف جس راستے سے آتے ہیں، وہ بہت بدبودار ہے، تو جب بارش ہوا کرے، اس وقت ہم کیا کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس کے بعد صاف راستہ نہیں آتا؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ صاف راستہ اس گندے راستے کا بدلہ ہو جائے گا۔“
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , ان امراة حدثته , قالت: نام رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم استيقظ وهو يضحك , فقلت: تضحك مني يا رسول الله؟ قال: " لا , ولكن من قوم من امتي يخرجون غزاة في البحر , مثلهم مثل الملوك على الاسرة" , قالت: ثم نام , ثم استيقظ ايضا يضحك , فقلت: تضحك يا رسول الله مني؟ قال:" لا , ولكن من قوم من امتي يخرجون غزاة في البحر , فيرجعون قليلة غنائمهم مغفورا لهم" , قالت: ادع الله ان يجعلني منهم , فدعا لها , قال: فاخبرني عطاء بن يسار , قال: فرايتها في غزاة غزاها المنذر بن الزبير إلى ارض الروم هي معنا , فماتت بارض الروم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , أَنَّ امْرَأَةً حَدَّثَتْهُ , قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ , فَقُلْتُ: تَضْحَكُ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " لَا , وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِي يَخْرُجُونَ غُزَاةً فِي الْبَحْرِ , مَثَلُهُمْ مَثَلُ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ" , قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ , ثُمَّ اسْتَيْقَظَ أَيْضًا يَضْحَكُ , فَقُلْتُ: تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنِّي؟ قَالَ:" لَا , وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِي يَخْرُجُونَ غُزَاةً فِي الْبَحْرِ , فَيَرْجِعُونَ قَلِيلَةً غَنَائِمُهُمْ مَغْفُورًا لَهُمْ" , قَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , فَدَعَا لَهَا , قالَ: فَأَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ , قَالَ: فَرَأَيْتُهَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ إِلَى أَرْضِ الرُّومِ هِيَ مَعَنَا , فَمَاتَتْ بِأَرْضِ الرُّومِ .
ایک خاتون صحابیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں قیولہ فرما رہے تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے، میں نے عرض کیا کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ کس بناء پر مسکرا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگوں کو پیش کیا گیا جو اس سطح سمندر پر اس طرح سوار چلے جا رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر براجمان ہوتے ہیں“، میں نے عرض کیا کہ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! انہیں بھی ان میں شامل فرما دے۔“ چنانچہ وہ اپنے شوہر حضرت عبادہ صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سمندری جہاد میں شریک ہوئیں اور اپنے ایک سرخ و سفید خچر سے گر کر ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گئیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2799، م: 1912، وقوله فى آخر الحديث: فرأيتها فى غزاة غزاها...، وهم، لان المحفوظ ان ام حرام انما استشهدت فى قبرص، وكانت مع جيش معاوية بن ابي سفيان، لما غزاها
حضرت ام ہشام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا، میں نے سورۃ ق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی یاد کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف ظاهره الانقطاع
حضرت ام ہشام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دو سال تک ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا، میں نے سورۃ ق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی یاد کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا إبراهيم بن سعد , حدثنا ابن شهاب , ويعقوب , حدثنا ابي , عن ابن شهاب , عن خارجة بن زيد بن ثابت , عن ام العلاء الانصارية وهي امراة من نسائهم , قال يعقوب: اخبرته , انها بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال عثمان بن مظعون في السكنى , قال يعقوب: طار لهم في السكنى , حين اقترعت الانصار على سكنى المهاجرين , قالت ام العلاء: فاشتكى عثمان بن مظعون عندنا , فمرضناه حتى إذا توفي ادرجناه في اثوابه , فدخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: رحمة الله عليك يا ابا السائب , شهادتي عليك لقد اكرمك الله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وما يدريك ان الله اكرمه؟" , قالت: فقلت: لا ادري , بابي انت وامي , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما هو , فقد جاءه اليقين من ربه , وإني لارجو الخير له , والله ما ادري وانا رسول الله ما يفعل بي" , قال يعقوب: به , قالت: والله لا ازكي احدا بعده ابدا , فاحزنني ذلك , فنمت فاريت لعثمان عينا تجري , فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاخبرته ذلك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذاك عمله" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , وَيَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , عَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةِ وَهِيَ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَائِهِمْ , قَالَ يَعْقُوبُ: أَخْبَرْتُهُ , أَنَّهَا بَايَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فِي السُّكْنَى , قَالَ يَعْقُوبُ: طَارَ لَهُمْ فِي السُّكْنَى , حِينَ اقْتَرَعَتْ الْأَنْصَارُ عَلَى سُكْنَى الْمُهَاجِرِينَ , قَالَتْ أُمُّ الْعَلَاءِ: فَاشْتَكَى عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ عِنْدَنَا , فَمَرَّضْنَاهُ حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ أَدْرَجْنَاهُ فِي أَثْوَابِهِ , فَدَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ يَا أَبَا السَّائِبِ , شَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ؟" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا هُوَ , فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ مِنْ رَبِّهِ , وَإِنِّي لَأَرْجُو الْخَيْرَ له , وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي" , قَالَ يَعْقُوبُ: بِهِ , قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا , فَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ , فَنِمْتُ فَأُرِيتُ لِعُثْمَانَ عَيْنًا تَجْرِي , فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَخْبَرْتُهُ ذَلِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَاكَ عَمَلُهُ" .
حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا ”جو انصاری خواتین میں سے تھیں“ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے اور مہاجرین کی رہائش کے لئے انصار کے درمیان قرعہ اندازی کی گئی، ہمارے یہاں پہنچ کر ہمارے مہمان حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، ہم ان کی تیماداری کرتے رہے، جب وہ فوت ہو گئے تو ہم نے انہیں کفن میں لپیٹ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے، میں نے کہا: اے ابوالسائب! اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں، میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو معزز کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف سے یقین آ گیا، میں ان کے لئے خیر کی امید رکھتا ہوں، لیکن واللہ مجھے اللہ کا پیغمبر ہونے کے باوجود یہ علم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا؟“ میں نے عرض کیا: واللہ! آج کے بعد میں کبھی کسی کی پاکیزگی کا اعلان نہیں کروں گی، میں اس واقعے پر غمگین تھی، اسی حال میں سو گئی، میں نے خواب دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے لئے ایک چشمہ جاری ہے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور یہ خواب ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ان کے اعمال تھے۔“
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن خارجة بن زيد , قال: كانت ام العلاء الانصارية , تقول: لما قدم المهاجرون المدينة , اقترعت الانصار على سكنهم , فطار لنا عثمان بن مظعون في السكنى , فذكرت الحديث , إلا انه قال:" ما ادري وانا رسول الله ما يفعل بي ولا بكم".حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَتْ أُمُّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةُ , تَقُولُ: لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ , اقْتَرَعَتْ الْأَنْصَارُ عَلَى سَكَنِهِمْ , فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فِي السُّكْنَى , فَذَكَرَتْ الْحَدِيثَ , إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ".
حدثنا يونس بن محمد , حدثنا ليث بن سعد , حدثنا يزيد بن ابي حبيب , عن ابي النضر , عن خارجة بن زيد , عن امه , قالت: إن عثمان بن مظعون لما قبض , قالت ام خارجة بنت زيد: طبت ابا السائب , خير ايامك الخير , فسمعها نبي الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" من هذه؟" , قالت: انا , قال صلى الله عليه وسلم:" وما يدريك؟" , فقلت: يا رسول الله , عثمان بن مظعون , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اجل عثمان بن مظعون , ما راينا إلا خيرا , وهذا انا رسول الله , والله ما ادري ما يصنع بي" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي النَّضْرِ , عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أُمِّهِ , قَالَتْ: إِنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ لَمَّا قُبِضَ , قَالَتْ أُمُّ خَارِجَةَ بِنْتُ زَيْدٍ: طِبْتَ أَبَا السَّائِبِ , خَيْرُ أَيَّامِكَ الْخَيْرُ , فَسَمِعَهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" , قَالَتْ: أَنَا , قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا يُدْرِيكِ؟" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَجَلْ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ , مَا رَأَيْنَا إِلَّا خَيْرًا , وَهَذَا أَنَا رَسُولُ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا يُصْنَعُ بِي" .
حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا ”جو انصاری خواتین میں سے تھیں“ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے اور مہاجرین کی رہائش کے لئے انصار کے درمیان قرعہ اندازی کی گئی، ہمارے یہاں پہنچ کر ہمارے مہمان حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، ہم ان کی تیماداری کرتے رہے، جب وہ فوت ہو گئے تو ہم نے انہیں کفن میں لپیٹ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے، میں نے کہا: اے ابوالسائب! اللہ کی رحمیتیں آپ پر نازل ہوں، میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو معزز کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف سے یقین آ گیا، میں ان کے لئے خیر کی امید رکھتا ہوں، لیکن واللہ مجھے اللہ کا پیغمبر ہونے کے باوجود یہ علم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو گا؟“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى النضر
حضرت ام طارق رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دار یعلیٰ کے ایک مکان میں ”جس کا نام عبیداللہ بھول گئے“ داخل ہوئے تو بیت اللہ کی جانب رخ کر کے دعا فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن طارق، وقد اضطرب فيه ، وقوله: عن أمه، هو الأشبه
حضرت ام طارق رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دار یعلیٰ کے ایک مکان میں ”جس کا نام عبیداللہ بھول گئے“ داخل ہوئے تو بیت اللہ کی جانب رخ کر کے دعا فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن طارق، وقد اضطرب فيه، وقوله: عن عمه، مرجوح، عن أمه هو الأشبه
حضرت ام طارق رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دار یعلیٰ کے ایک مکان میں ”جس کا نام عبیداللہ بھول گئے“ داخل ہوئے تو بیت اللہ کی جانب رخ کر کے دعا فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن طارق، وقد اضطرب فيه