حدثنا إسماعيل , عن ليث , عن حبيب بن ابي ثابت , عن ميمون بن ابي شبيب , عن معاذ , انه قال: يا رسول الله , اوصني , قال: " اتق الله حيثما كنت , او اينما كنت" , قال: زدني , قال:" اتبع السيئة الحسنة تمحها" , قال: زدني , قال:" خالق الناس بخلق حسن" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوْصِنِي , قَالَ: " اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ , أَوْ أَيْنَمَا كُنْتَ" , قَالَ: زِدْنِي , قَالَ:" أَتْبِعْ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا" , قَالَ: زِدْنِي , قَالَ:" خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو میں نے مزید کی درخواست کی تو فرمایا گناہ ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے میں نے مزید کی درخواست کی تو فرمایا لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، ميمون بن أبى شبيب لم يدرك معاذا، وليث ضعيف، لكنهما توبعا
حدثنا سفيان بن عيينة , عن عمرو يعني ابن دينار , قال: سمعت جابر بن عبد الله , يقول: انا من شهد معاذا حين حضرته الوفاة , يقول: اكشفوا عني سجف القبة احدثكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال مرة: اخبركم بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , لم يمنعني ان احدثكموه إلا ان تتكلوا , سمعته يقول: " من شهد ان لا إله إلا الله مخلصا من قلبه , او يقينا من قلبه , لم يدخل النار او دخل الجنة" , وقال مرة:" دخل الجنة ولم تمسه النار" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: أَنَا مَنْ شَهِدَ مُعَاذًا حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ مَرَّةً: أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا , سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ , أَوْ يَقِينًا مِنْ قَلْبِهِ , لَمْ يَدْخُلْ النَّارَ أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ" , وَقَالَ مَرَّةً:" دَخَلَ الْجَنَّةَ وَلَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ" .
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اپنے مرض الوفات میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے فرمایا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن رکھی ہے جو میں اب تک تم سے چھپاتا رہا ہوں (اب بیان کر رہا ہوں) لہٰذاخیمے کے پردے ہٹا دو اور اب تک میں نے یہ حدیث صرف اس لئے نہیں بیان کی تھی کہ تم اس پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جاؤ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا سے رخصتی کے وقت جس شخص کا آخری کلام یقین قلب کے ساتھ " لا الہ الا اللہ " ہو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات غير الواسطة المبهمة التى روى عنها جابر ابن عبدالله الصحابي
حدثنا وكيع , حدثنا شعبة , عن ابي عون الثقفي , عن الحارث بن عمرو , عن رجال من اصحاب معاذ , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما بعثه إلى اليمن , فقال: " كيف تقضي؟" , قال: اقضي بكتاب الله , قال:" فإن لم يكن في كتاب الله؟" , قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" فإن لم يكن في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟" , قال اجتهد رايي , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ , عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: " كَيْفَ تَقْضِي؟" , قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟" , قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" , قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطاء فرما دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام أصحاب معاذ، وجهالة الحارث، ثم هو مرسل
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی؟
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا حدثنا وكيع , حدثنا جعفر بن برقان , عن حبيب بن ابي مرزوق , عن عطاء بن ابي رباح , عن ابي مسلم الخولاني , قال: اتيت مسجد اهل دمشق , فإذا حلقة فيها كهول من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , وإذا شاب فيهم اكحل العين , براق الثنايا , كلما اختلفوا في شيء ردوه إلى الفتى , فتى شاب , قال: قلت لجليس لي: من هذا؟ قال: هذا معاذ بن جبل , قال: فجئت من العشي فلم يحضروا , قال: فغدوت من الغد , قال: فلم يجيئوا , فرحت فإذا انا بالشاب يصلي إلى سارية , فركعت ثم تحولت إليه , قال: فسلم , فدنوت منه , فقلت: إني لاحبك في الله , قال: فمدني إليه , قال: كيف قلت؟ قلت: إني لاحبك في الله , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه , يقول: " المتحابون في الله , على منابر من نور في ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله" , قال: فخرجت حتى لقيت عبادة بن الصامت , فذكرت له حديث معاذ بن جبل , فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه عز وجل , يقول:" حقت محبتي للمتحابين في , وحقت محبتي للمتباذلين في , وحقت محبتي للمتزاورين في , والمتحابون في الله على منابر من نور في ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ , قَالَ: أَتَيْتُ مَسْجِدَ أَهْلِ دِمَشْقَ , فَإِذَا حَلْقَةٌ فِيهَا كُهُولٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِذَا شَابٌّ فِيهِمْ أَكْحَلُ الْعَيْنِ , بَرَّاقُ الثَّنَايَا , كُلَّمَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إِلَى الْفَتَى , فَتًى شَابٌّ , قَالَ: قُلْتُ لِجَلِيسٍ لِي: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , قَالَ: فَجِئْتُ مِنَ الْعَشِيِّ فَلَمْ يَحْضُرُوا , قَالَ: فَغَدَوْتُ مِنَ الْغَدِ , قَالَ: فَلَمْ يَجِيئُوا , فَرُحْتُ فَإِذَا أَنَا بِالشَّابِّ يُصَلِّي إِلَى سَارِيَةٍ , فَرَكَعْتُ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ إِلَيْهِ , قَالَ: فَسَلَّمَ , فَدَنَوْتُ مِنْهُ , فَقُلْتُ: إِنِّي لَأُحِبُّكَ فِي اللَّهِ , قَالَ: فَمَدَّنِي إِلَيْهِ , قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قُلْتُ: إِنِّي لَأُحِبُّكَ فِي اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ , يَقُولُ: " الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ , عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى لَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ , فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ , يَقُولُ:" حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ , وَالْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ" ..
ابو ادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ "" میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے عرش کے سائے تلے نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے جبکہ عرش کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا۔
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا حريز يعني ابن عثمان , حدثنا راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد السكوني , وكان من اصحاب معاذ بن جبل , عن معاذ , قال: رقبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة العشاء , فاحتبس حتى ظننا ان لن يخرج , والقائل منا يقول: قد صلى ولن يخرج , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: يا رسول الله , ظننا انك لن تخرج , والقائل منا يقول: قد صلى ولن يخرج , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعتموا بهذه الصلاة , فقد فضلتم بها على سائر الامم , ولم يصلها امة قبلكم" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أخبرَنَا حَرِيزٌ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ , حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّكُونِيِّ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: رَقَبْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ , فَاحْتَبَسَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَنْ يَخْرُجَ , وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: قَدْ صَلَّى وَلَنْ يَخْرُجَ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ظَنَنَّا أَنَّكَ لَنْ تَخْرُجَ , وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: قَدْ صَلَّى وَلَنْ يَخْرُجَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْتِمُوا بِهَذِهِ الصَّلَاةِ , فَقَدْ فُضِّلْتُمْ بِهَا عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ , وَلَمْ يُصَلِّهَا أُمَّةٌ قَبْلَكُمْ" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نماز عشاء کے وقت ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک نہ آئے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ شاید اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئیں گے اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے ہیں اس لئے وہ اب نہیں آئیں گے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب آپ تشریف نہیں لائیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں اس لئے باہر نہیں آئیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نماز پڑھو کیونکہ تمام امتوں پر اس نماز میں تمہیں فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔
ابو ادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ "" میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے عرش کے سائے تلے نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے جبکہ عرش کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن الحكم , قال: سمعت عروة بن النزال يحدث , عن معاذ بن جبل , قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك , فلما رايته خليا , قلت: يا رسول الله , اخبرني بعمل يدخلني الجنة , قال: " بخ , لقد سالت عن عظيم , وهو يسير على من يسره الله عليه , تقيم الصلاة المكتوبة , وتؤدي الزكاة المفروضة , وتلقى الله عز وجل لا تشرك به شيئا , اولا ادلك على راس الامر , وعموده , وذروة سنامه؟ اما راس الامر فالإسلام فمن اسلم سلم , واما عموده فالصلاة , واما ذروة سنامه فالجهاد في سبيل الله , اولا ادلك على ابواب الخير؟ الصوم جنة , والصدقة , وقيام العبد في جوف الليل يكفر الخطايا , وتلا هذه الآية: تتجافى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون سورة السجدة آية 16 اولا ادلك على املك ذلك لك كله؟" , قال: فاقبل نفر , قال: فخشيت ان يشغلوا عني رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال شعبة: او كلمة نحوها , قال: فقلت: يا رسول الله , قولك: اولا ادلك على املك ذلك لك كله؟ قال: فاشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى لسانه , قال: قلت: يا رسول الله؟ وإنا لنؤاخذ بما نتكلم به؟ قال:" ثكلتك امك معاذ , وهل يكب الناس على مناخرهم إلا حصائد السنتهم" . قال شعبة : قال لي الحكم : وحدثني به ميمون بن ابي شبيب , وقال الحكم: سمعته منه منذ اربعين سنة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنِ الْحَكَمِ , قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ النَّزَّالِ يُحَدِّثُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ , فَلَمَّا رَأَيْتُهُ خَلِيًّا , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ , قَالَ: " بَخٍ , لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ , وَهُوَ يَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ , تُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ , وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ , وَتَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا , أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى رَأْسِ الْأَمْرِ , وَعَمُودِهِ , وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ أَمَّا رَأْسُ الْأَمْرِ فَالْإِسْلَامُ فَمَنْ أَسْلَمَ سَلِمَ , وَأَمَّا عَمُودُهُ فَالصَّلَاةُ , وَأَمَّا ذُرْوَةُ سَنَامِهِ فَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ , وَالصَّدَقَةُ , وَقِيَامُ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُكَفِّرُ الْخَطَايَا , وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ سورة السجدة آية 16 أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْلَكِ ذَلِكَ لَكَ كُلِّهِ؟" , قَالَ: فَأَقْبَلَ نَفَرٌ , قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ يَشْغَلُوا عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ شُعْبَةُ: أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَوْلُكَ: أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْلَكِ ذَلِكَ لَكَ كُلِّهِ؟ قَالَ: فَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى لِسَانِهِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَإِنَّا لَنُؤَاخَذُ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ قَالَ:" ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ مُعَاذُ , وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ" . قَالَ شُعْبَةُ : قَالَ لِي الْحَكَمُ : وَحَدَّثَنِي بِهِ مَيْمُونُ بْنُ أَبِي شَبِيبٍ , وقَالَ الْحَكَمُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے دوران سفر ایک دن مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی البتہ جس کے لئے اللہ آسان کر دے اس کے لئے بہت آسان ہے نماز قائم کرو اور اللہ سے اس حال میں ملو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہو۔
پھر فرمایا کیا میں تمہیں دین کی بنیاد، اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیوں نہیں فرمایا اس دین و مذہب کی بنیاد اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے نہ بتادوں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو انسان کا نماز پڑھنا باب خیر میں سے ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت سجدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی " تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔۔۔۔۔ یعلمون " پھر فرمایا کیا میں تمہیں ان چیزوں کا مجموعہ نہ بتادوں؟ اسی دوران سامنے سے کچھ لوگ آگئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ نہ کرلیں اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بات یاد دلائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اس کو روک کر رکھو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی؟
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، عروة بن النزال مجهول، ولم يسمعه من معاذ، ومتابع عروة ميمون لم يسمع من معاذ أيضا،لكنهما توبعا