حدثنا يزيد ، حدثنا كهمس بن الحسن ، حدثنا ابو السليل ، عن ابي ذر ، قال: جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلو علي هذه الآية ومن يتق الله يجعل له مخرجا سورة الطلاق آية 2، حتى فرغ من الآية، ثم قال:" يا ابا ذر، لو ان الناس كلهم اخذوا بها لكفتهم"، قال: فجعل يتلوها، ويرددها علي حتى نعست، ثم قال:" يا ابا ذر، كيف تصنع إن اخرجت من المدينة؟" قال: قلت: إلى السعة والدعة، انطلق حتى اكون حمامة من حمام مكة، قال:" كيف تصنع إن اخرجت من مكة؟" قال: قلت: إلى السعة والدعة، إلى الشام والارض المقدسة، قال:" كيف تصنع إن اخرجت من الشام؟" قال: قلت: إذا والذي بعثك بالحق اضع سيفي على عاتقي، قال:" او خير من ذلك؟" قال: قلت: او خير من ذلك؟! قال:" تسمع وتطيع وإن كان عبدا حبشيا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو السَّلِيلِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْلُو عَلَيَّ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سورة الطلاق آية 2، حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، لَوْ أَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ أَخَذُوا بِهَا لَكَفَتْهُمْ"، قَالَ: فَجَعَلَ يَتْلُوِهَا، وَيُرَدِّدُهَا عَلَيَّ حَتَّى نَعَسْتُ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الْمَدِينَةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِلَى السَّعَةِ وَالدَّعَةِ، أَنْطَلِقُ حَتَّى أَكُونَ حَمَامَةً مِنْ حَمَامِ مَكَّةَ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنْ مَكَّةَ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِلَى السَّعَةِ وَالدَّعَةِ، إِلَى الشَّامِ وَالْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الشَّامِ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِذًا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعَ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، قَالَ:" أَوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟" قَالَ: قُلْتُ: أَوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟! قَالَ:" تَسْمَعُ وَتُطِيعُ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے یہ آیت تلاوت فرمانے لگے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے پھر فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ اگر ساری انسانیت بھی اس پر عمل کرنے لگے تو یہ آیت انہیں بھی کافی ہوجائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مرتبہ اسے میرے سامنے دہرایا کہ اس کے سحر سے مجھ پر اونگھ طاری ہونے لگی، پھر فرمایا اے ابوذر! جب تمہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ گنجائش کا پہلو اختیار کر کے میں اسے چھوڑ دوں گا اور جا کر حرم مکہ کا کبوتر بن جاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر بھی وسعت کا پہلو اختیار کر کے اسے چھوڑ کر شام اور ارض مقدس چلا جاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کہ کیا اس سے بہتر طریقہ بھی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بات سننا اور مانتے رہنا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو السليل لم يدرك أبا ذر
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن ابي عمرو الشامي ، عن عبيد بن الخشخاش ، عن ابي ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد فجلست إليه، فقال لي:" يا ابا ذر، هل صليت؟" قلت: لا، قال:" قم فصل"، قال: فقمت فصليت، ثم اتيته فجلست إليه، فقال:" يا ابا ذر، استعذ بالله من شر شياطين الإنس والجن"، قال: قلت: يا رسول الله، وهل للإنس من شياطين؟ قال:" نعم، يا ابا ذر، الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: قلت: بلى بابي انت وامي، قال:" قل لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة"، قال: قلت: يا رسول الله، فما الصلاة؟ قال:" خير موضوع، فمن شاء اكثر ومن شاء اقل"، قال: قلت: فما الصيام، يا رسول الله؟ قال:" فرض مجزئ"، قال: قلت: يا رسول الله، فما الصدقة؟ قال:" اضعاف مضاعفة، وعند الله مزيد"، قال: قلت: ايها افضل يا رسول الله؟ قال:" جهد من مقل، او سر إلى فقير"، قلت: فاي ما انزل الله عز وجل عليك اعظم؟ قال:" الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255" حتى ختم الآية، قلت: فاي الانبياء كان اول؟ قال:" آدم"، قلت: اونبي كان يا رسول الله؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قلت: فكم المرسلون يا رسول الله؟ قال:" ثلاث مئة وخمسة عشر، جما غفيرا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّامِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْخَشْخَاشِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ"، قَالَ: فَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، اسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ لِلْإِنْسِ مِنْ شَيَاطِينَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قَالَ:" قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" خَيْرٌ مَوْضُوعٌ، فَمَنْ شَاءَ أَكْثَرَ وَمَنْ شَاءَ أَقَلَّ"، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الصِّيَامُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" فَرْضٌ مُجْزِئٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّدَقَةُ؟ قَالَ:" أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ، وَعِنْدَ اللَّهِ مَزِيدٌ"، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" جُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ، أَوْ سِرٌّ إِلَى فَقِيرٍ"، قُلْتُ: فَأَيُّ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255" حَتَّى خَتَمَ الْآيَةَ، قُلْتُ: فَأَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ:" آدَمُ"، قُلْتُ: أَوَنَبِيٌّ كَانَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قُلْتُ: فَكَمْ الْمُرْسَلُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" ثَلَاثُ مِئَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، جَمًّا غَفِيرًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر رضی اللہ عنہ کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھو، چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آکر مجلس میں دوبارہ شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! انسانوں اور جنات میں سے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا یا رسول اللہ! نماز کا کیا حکم ہے؟ فرمایا بہترین موضوع ہے جو چاہے کم حاصل کرے اور جو چاہے زیادہ حاصل کرلے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایک فرض ہے جسے ادا کیا جائے گا تو کافی ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں اس کا اضافی ثواب ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صدقہ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کا بدلہ دوگنا چوگنا ملتا ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کی محنت کا صدقہ یا کسی ضرورت مند کا راز، میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ نبی تھے؟ فرمایا ہاں، بلکہ ایسے نبی جن سے باری تعالیٰ نے کلام فرمایا: میں نے پوچھا یا رسول اللہ! رسول کتنے آئے؟ فرمایا تین سو دس سے کچھ اوپر ایک عظیم گروہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر سب سے عظیم آیت کون سی نازل ہوئی؟ فرمایا آیت الکرسی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لجهالة عبيد بن الخشخاش، ولضعف أبى عمر
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا اسے کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج بن ارطاة ، عن عبد الملك بن المغيرة الطائفي ، عن عبد الله بن المقدام ، عن ابن شداد ، عن ابي ذر ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فاتاه رجل فقال: إن الآخر قد زنى، فاعرض عنه ثم ثلث ثم ربع، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم، وقال مرة: فاقر عنده بالزنا فردده اربعا، ثم نزل فامرنا فحفرنا له حفيرة ليست بالطويلة، فرجم فارتحل رسول الله صلى الله عليه وسلم كئيبا حزينا، فسرنا حتى نزل منزلا، فسري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي:" يا ابا ذر، الم تر إلى صاحبكم، غفر له وادخل الجنة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ الطَّائِفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمِقْدَامِ ، عَنْ ابْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ الْآخِرَ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ ثَلَّثَ ثُمَّ رَبَّعَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: فَأَقَرَّ عِنْدَهُ بِالزِّنَا فَرَدَّدَهُ أَرْبَعًا، ثُمَّ نَزَلَ فَأَمَرَنَا فَحَفَرْنَا لَهُ حَفِيرَةً لَيْسَتْ بِالطَّوِيلَةِ، فَرُجِمَ فَارْتَحَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَئِيبًا حَزِينًا، فَسِرْنَا حَتَّى نَزَلَ مَنْزِلًا، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَمْ تَرَ إِلَى صَاحِبِكُمْ، غُفِرَ لَهُ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ نیکیوں سے پیچھے رہنے والے (میں نے) بدکاری کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا جب چار مرتبہ اسی طرح ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر پڑے اور ہمیں حکم دیا چنانچہ ہم نے اس کے لئے ایک گڑھا کھودا جو بہت زیادہ لمبا نہ تھا پھر اسے رجم کردیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غم اور پریشانی کی حالت میں وہاں سے کوچ فرما دیا اور ہم روانہ ہوگئے جب اگلی منزل پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی اور مجھ سے فرمایا ابوذر! دیکھو تو سہی تمہارے ساتھی کی بخشش ہوگئی اور اسے جنت میں داخل کردیا گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن، و عبدالله بن المقدام مجهول
ابو مسلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رات کے کس حصے میں قیام کرنا سب سے افضل ہے؟ انہوں نے فرمایا یہ سوال جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا رات کے پچھلے نصف پہر میں لیکن ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، المهاجر أبو خالد فيه لين، وأبو مسلم مجهول
حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الجليل يعني ابن عطية ، حدثنا مزاحم بن معاوية الضبي ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج زمن الشتاء والورق يتهافت، فاخذ بغصنين من شجرة، قال: فجعل ذلك الورق يتهافت، قال: فقال:" يا ابا ذر"، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " إن العبد المسلم ليصلي الصلاة يريد بها وجه الله، فتهافت عنه ذنوبه كما يتهافت هذا الورق عن هذه الشجرة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَلِيلِ يَعْنِي ابْنَ عَطِيَّةَ ، حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الضَّبِّيُّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، فَأَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذَلِكَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ يُرِيدُ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوبُهُ كَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی کے موسم میں باہر نکلے، اس وقت پت جھڑ لگا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں تو اس سے پتے جھڑنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! میں نے " لبیک یا رسول اللہ " کہا فرمایا بندہ مسلم جب اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جیسے اس درخت کے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة مزاحم بن معاوية
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اونٹوں میں گائے بکری میں اور گندم میں صدقہ (زکوٰۃ) ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الانقطاعه، ابن جريج لم يسمعه من عمران بن أبى أنس
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب میرے بعد آنے والے حکمران اس مال غنیمت میں تم پر دوسروں کو ترجیح دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور ان سے اتنا لڑوں گا کہ آپ سے آملوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ دکھاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب میرے بعد آنے والے حکمران اس مال غنیمت میں تم پر دوسروں کو ترجیح دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور ان سے اتنا لڑوں گا کہ آپ سے آملوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ دکھاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت کے خلاف چلتا ہے وہ اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال دیتا ہے۔