حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی مرضی سے انسان کو اس کی آنکھ کسی چیز کا اتنا گرویدہ بنا لیتی ہے کہ وہ مونڈنے والی چیز پر چڑھتا چلا جاتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس سے نیچے گرپڑتا ہے۔
حدثنا حسين ، حدثنا يزيد يعني ابن عطاء ، عن يزيد يعني ابن زياد ، عن مجاهد ، عن رجل ، عن ابي ذر ، قال خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اتدرون اي الاعمال احب إلى الله؟" قال قائل الصلاة والزكاة، وقال قائل الجهاد، قال:" إن احب الاعمال إلى الله الحب في الله، والبغض في الله" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟" قَالَ قَائِلٌ الصَّلَاةُ وَالزَّكَاةُ، وَقَالَ قَائِلٌ الْجِهَادُ، قَالَ:" إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟ کسی نے نماز اور زکوٰۃ کا نام لیا اور کسی نے جہاد کو بتایا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ کے لئے کسی سے محبت یا نفرت کرنا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، يزيد بن عطاء و يزيد بن أبى زياد ضعيفان ولإبهام الراوي عن أبى ذر
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني عامر، قال: كنت كافرا، فهداني الله للإسلام، وكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، وقد نعت لي ابو ذر ، فحججت فدخلت مسجد منى فعرفته بالنعت، فإذا شيخ معروف آدم، عليه حلة قطري، فذهبت حتى قمت إلى جنبه وهو يصلي، فسلمت عليه فلم يرد علي، ثم صلى صلاة اتمها واحسنها، واطولها، فلما فرغ رد علي، قلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي ليزعمون ذلك! قال كنت كافرا فهداني الله للإسلام، واهمني ديني، وكنت اعزب عن الماء ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، قال: هل تعرف ابا ذر؟! قلت: نعم، قال: فإني اجتويت المدينة، قال ايوب او كلمة نحوها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود من إبل وغنم، فكنت اكون فيها، فكنت اعزب من الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة، فوقع في نفسي اني قد هلكت، فقعدت على بعير منها، فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم نصف النهار، وهو جالس في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فنزلت عن البعير، وقلت: يا رسول الله، هلكت، قال:" وما اهلكك؟" فحدثته فضحك، فدعا إنسانا من اهله، فجاءت جارية سوداء بعس فيه ماء، ما هو بملآن، إنه ليتخضخض، فاستترت بالبعير، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من القوم فسترني فاغتسلت، ثم اتيته، فقال: " إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء، ولو إلى عشر حجج، فإذا وجدت الماء فامس بشرتك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: كُنْتُ كَافِرًا، فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، وَقَدْ نُعِتَ لِي أَبُو ذَرٍّ ، فَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَ مِنًى فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَإِذَا شَيْخٌ مَعْرُوفٌ آدَمُ، عَلَيْهِ حُلَّةٌ قِطْرِيٌّ، فَذَهَبْتُ حَتَّى قُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، ثُمَّ صَلَّى صَلَاةً أَتَمَّهَا وَأَحْسَنَهَا، وَأَطْوَلَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ رَدَّ عَلَيَّ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي لَيَزْعُمُونَ ذَلِكَ! قَالَ كُنْتُ كَافِرًا فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَهَمَّنِي دِينِي، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، قَالَ: هَلْ تَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ أَيُّوبُ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ مِنْ إِبِلٍ وَغَنَمٍ، فَكُنْتُ أَكُونُ فِيهَا، فَكُنْتُ أَعْزُبُ مِنَ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنِّي قَدْ هَلَكْتُ، فَقَعَدْتُ عَلَى بَعِيرٍ مِنْهَا، فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِصْفَ النَّهَارِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَنَزَلْتُ عَنِ الْبَعِيرِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ، قَالَ:" وَمَا أَهْلَكَكَ؟" فَحَدَّثْتُهُ فَضَحِكَ، فَدَعَا إِنْسَانًا مِنْ أَهْلِهِ، فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ، مَا هُوَ بِمَلْآنَ، إِنَّهُ لَيَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالْبَعِيرِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْقَوْمِ فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ، وَلَوْ إِلَى عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّ بَشَرَتَكَ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني قشير، قال: كنت اعزب عن الماء، فتصيبني الجنابة، فلا اجد الماء، فاتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، فاتيت ابا ذر في منزله فلم اجده، فاتيت المسجد وقد وصفت لي هيئته، فإذا هو يصلي فعرفته بالنعت، فسلمت، فلم يرد علي حتى انصرف، ثم رد علي، فقلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي يزعمون ذاك! فقلت: ما كان احد من الناس احب إلي رؤيته منك، فقال: قد رايتني! فقلت: إني كنت اعزب عن الماء فتصيبني الجنابة، فلبثت اياما اتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، او اشكل علي! فقال: اتعرف ابا ذر؟! كنت بالمدينة فاجتويتها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بغنيمة، فخرجت فيها فاصابتني جنابة، فتيممت بالصعيد، فصليت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فامرت بناقة لي او قعود، فشد عليها ثم ركبت، قال: حتى قدمت المدينة، فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فسلمت عليه، فرفع راسه وقال:" سبحان الله، ابو ذر؟!" فقلت: نعم يا رسول الله، إني اصابتني جنابة، فتيممت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فجاءت به امة سوداء في عس يتخضخض، فاستترت بالراحلة، وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فسترني فاغتسلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء ولو في عشر حجج، فإذا قدرت على الماء فامسه بشرتك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي قُشَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَا أَجِدُ الْمَاءَ، فَأَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَتَيْتُ الْمَسْجِدَ وَقَدْ وُصِفَتْ لِي هَيْئَتُهُ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَسَلَّمْتُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي يَزْعُمُونَ ذَاكَ! فَقُلْتُ: مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَحَبَّ إِلَيَّ رُؤْيَتُهُ مِنْكَ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتَنِي! فَقُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَبِثْتُ أَيَّامًا أَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، أَوْ أُشْكِلَ عَلَيَّ! فَقَالَ: أَتَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَاجْتَوَيْتُهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغُنَيْمَةٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا فَأَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّيْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَأَمَرْتُ بِنَاقَةٍ لِي أَوْ قَعُودٍ، فَشُدَّ عَلَيْهَا ثُمَّ رَكِبْتُ، قَالَ: حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، أَبُو ذَرٍّ؟!" فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَجَاءَتْ بِهِ أَمَةٌ سَوْدَاءُ فِي عُسٍّ يَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ، وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ وَلَوْ فِي عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا قَدَرْتَ عَلَى الْمَاءِ فَأَمِسَّهُ بَشَرَتَكَ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابي العالية ، قال: اخر عبيد الله بن زياد الصلاة، فسالت عبد الله بن الصامت فضرب فخذي، قال: سالت خليلي ابا ذر فضرب فخذي، وقال: سالت خليلي يعني النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " صل لميقاتها، فإن ادركت فصل معهم، ولا تقولن: إني قد صليت فلا اصلي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، قَالَ: أَخَّرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الصَّامِتِ فَضَرَبَ فَخِذِي، قَالَ: سَأَلَتُ خَلِيلِي أَبَا ذَرٍّ فَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ خَلِيلِي يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَلِّ لِمِيقَاتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَ فَصَلِّ مَعَهُمْ، وَلَا تَقُولَنَّ: إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي" .
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبیداللہ بن زیاد نے کسی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیا میں نے عبداللہ بن صامت رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہی سوال میں نے اپنے دوست حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہی سوال میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن المخارق ، قال: خرجنا حجاجا، فلما بلغنا الربذة، قلت لاصحابي: تقدموا وتخلفت، فاتيت ابا ذر وهو يصلي، فرايته يطيل القيام، ويكثر الركوع والسجود، فذكرت ذلك له، فقال: ما الوت ان احسن، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ركع ركعة او سجد سجدة رفع بها درجة، وحطت عنه بها خطيئة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُخَارِقِ ، قَالَ: خَرَجْنَا حُجَّاجًا، فَلَمَّا بَلَغْنَا الرَّبَذَةَ، قُلْتُ لِأَصْحَابِي: تَقَدَّمُوا وَتَخَلَّفْتُ، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَهُوَ يُصَلِّي، فَرَأَيْتُهُ يُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: مَا أَلَوْتُ أَنْ أُحْسِنَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَكَعَ رَكْعَةً أَوْ سَجَدَ سَجْدَةً رُفِعَ بِهَا دَرَجَةً، وَحُطَّتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ" .
مخارق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج کے ارادے سے نکلے جب ہم مقام ربذہ میں پہنچے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم آگے چلو اور میں خود پیچھے رہ گیا میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے میں نے طویل قیام اور کثرت رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھا میں نے ان سے اس چیز کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنی طرف سے بہتر سے بہتر میں کوئی کمی نہیں کرتا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص ایک رکوع یا ایک سجدہ کرتا ہے اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہو کردیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المخارق
حدثنا حدثنا عبد الله، قال: قرات على ابي هذا الحديث فاقر به، حدثني مهدي بن جعفر الرملي ، حدثني ضمرة ، عن ابي زرعة السيباني ، عن قنبر حاجب معاوية ، قال: كان ابو ذر يغلظ لمعاوية، قال: فشكاه إلى عبادة بن الصامت، وإلى ابي الدرداء، وإلى عمرو بن العاص، وإلى ام حرام، فقال: " إنكم قد صحبتم كما صحب، ورايتم كما راى، فإن رايتم ان تكلموه، ثم ارسل إلى ابي ذر فجاء فكلموه، فقال: اما انت يا ابا الوليد، فقد اسلمت قبلي، ولك السن والفضل علي، وقد كنت ارغب بك عن مثل هذا المجلس، واما انت يا ابا الدرداء، فإن كادت وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تفوتك، ثم اسلمت، فكنت من صالحي المسلمين، واما انت يا عمرو بن العاص، فقد جاهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، واما انت يا ام حرام، فإنما انت امراة، وعقلك عقل امراة، واما انت وذاك؟! قال: فقال: عبادة لا جرم لا جلست مثل هذا المجلس ابدا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد الله، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ فَأَقَرَّ بِهِ، حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ ، عَنْ قَنْبَرٍ حَاجِبِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُغَلِّظُ لِمُعَاوِيَةَ، قَالَ: فَشَكَاهُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَإِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَإِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَإِلَى أُمِّ حَرَامٍ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ قَدْ صَحِبْتُمْ كَمَا صَحِبَ، وَرَأَيْتُمْ كَمَا رَأَى، فَإِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُكَلِّمُوهُ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَجَاءَ فَكَلَّمُوهُ، فَقَالَ: أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ، فَقَدْ أَسْلَمْتَ قَبْلِي، وَلَكَ السِّنُّ وَالْفَضْلُ عَلَيَّ، وَقَدْ كُنْتُ أَرْغَبُ بِكَ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْمَجْلِسِ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أبا الدَّرْدَاءِ، فَإِنْ كَادَتْ وَفَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَفُوتَكَ، ثُمَّ أَسْلَمْتَ، فَكُنْتَ مِنْ صَالِحِي الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَمْرُو بْنَ الْعَاصِ، فَقَدْ جَاهَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا أَنْتِ يَا أُمَّ حَرَامٍ، فَإِنَّمَا أَنْتِ امْرَأَةٌ، وَعَقْلُكِ عَقْلُ امْرَأَةٍ، وَأَمَّا أَنْتَ وَذَاكَ؟! قَالَ: فَقَالَ: عُبَادَةُ لَا جَرَمَ لَا جَلَسْتُ مِثْلَ هَذَا الْمَجْلِسِ أَبَدًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تلخ باتیں کرتے تھے جس کی شکایت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ام حرام رضی اللہ عنہ کے سامنے کی اور فرمایا کہ جیسے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے آپ لوگوں کو بھی یہ شرف حاصل ہے اور جس طرح انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے آپ نے بھی کی ہے آپ لوگ مناسب سمجھیں تو ان سے بات کریں انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلایا۔جب وہ آگئے تو مذکورہ حضرات نے ان سے گفتگو کی انہوں نے فرمایا اے ابو الولید! آپ نے تو مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا ہے آپ عمر اور فضیلت میں مجھ سے بڑھ کر ہیں میں ایسی مجلس سے آپ کو بچنے کی ترغیب دیتا ہوں اور اے ابودرداء آپ نے اسلام اس وقت قبول کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا زمانہ قریب آگیا تھا آپ نیک مسلمان ہیں اور اے عمرو بن عاص! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ سے جہاد کیا ہوا ہے اور اے ام حرام! آپ ایک عورت ہیں اور آپ کی عقل بھی عورت والی ہے آپ اس معاملے میں نہ پڑیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ یہ رنگ دیکھ کر کہنے لگے یہ بات طے ہوگئی کہ آج کے بعد ایسی مجالس میں نہیں بیٹھوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وفي بعض حروفه نكارة، قنبر مجهول
حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، حدثنا بقية ، قال: واخبرني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، قال: قال ابو ذر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " قد افلح من اخلص قلبه للإيمان، وجعل قلبه سليما، ولسانه صادقا، ونفسه مطمئنة، وخليقته مستقيمة، وجعل اذنه مستمعة، وعينه ناظرة، فاما الاذن فقمع، والعين بمقرة لما يوعى القلب، وقد افلح من جعل قلبه واعيا" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ، وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا، وَلِسَانَهُ صَادِقًا، وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً، وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً، وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً، وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً، فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ، وَالْعَيْنُ بِمُقِرَّةٍ لِمَا يُوعَى الْقَلْبُ، وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے خالص کرلیا اور اسے قلب سلیم، لسان صادق، نفس مطمئنہ اور اخلاق حسنہ عطاء کئے گئے ہوں اس کے کانوں کو شنوائی اور آنکھوں کو بینائی دی گئی ہو اور کانوں کی مثال پیندے کی سی ہے جبکہ آنکھ دل میں محفوظ ہونے والی چیزوں کو ٹھکانہ فراہم کرتی ہے اور وہ شخص کامیاب ہوگیا جس کا دل محفوظ کرنے والا ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية لم يصرح بالتحديث فى جميع طبقات السند، وخالد بن معدان كان يرسل، ولم يصرح بسماعه من أبى ذر