حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني قشير، قال: كنت اعزب عن الماء، فتصيبني الجنابة، فلا اجد الماء، فاتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، فاتيت ابا ذر في منزله فلم اجده، فاتيت المسجد وقد وصفت لي هيئته، فإذا هو يصلي فعرفته بالنعت، فسلمت، فلم يرد علي حتى انصرف، ثم رد علي، فقلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي يزعمون ذاك! فقلت: ما كان احد من الناس احب إلي رؤيته منك، فقال: قد رايتني! فقلت: إني كنت اعزب عن الماء فتصيبني الجنابة، فلبثت اياما اتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، او اشكل علي! فقال: اتعرف ابا ذر؟! كنت بالمدينة فاجتويتها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بغنيمة، فخرجت فيها فاصابتني جنابة، فتيممت بالصعيد، فصليت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فامرت بناقة لي او قعود، فشد عليها ثم ركبت، قال: حتى قدمت المدينة، فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فسلمت عليه، فرفع راسه وقال:" سبحان الله، ابو ذر؟!" فقلت: نعم يا رسول الله، إني اصابتني جنابة، فتيممت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فجاءت به امة سوداء في عس يتخضخض، فاستترت بالراحلة، وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فسترني فاغتسلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء ولو في عشر حجج، فإذا قدرت على الماء فامسه بشرتك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي قُشَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَا أَجِدُ الْمَاءَ، فَأَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَتَيْتُ الْمَسْجِدَ وَقَدْ وُصِفَتْ لِي هَيْئَتُهُ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَسَلَّمْتُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي يَزْعُمُونَ ذَاكَ! فَقُلْتُ: مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَحَبَّ إِلَيَّ رُؤْيَتُهُ مِنْكَ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتَنِي! فَقُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَبِثْتُ أَيَّامًا أَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، أَوْ أُشْكِلَ عَلَيَّ! فَقَالَ: أَتَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَاجْتَوَيْتُهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغُنَيْمَةٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا فَأَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّيْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَأَمَرْتُ بِنَاقَةٍ لِي أَوْ قَعُودٍ، فَشُدَّ عَلَيْهَا ثُمَّ رَكِبْتُ، قَالَ: حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، أَبُو ذَرٍّ؟!" فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَجَاءَتْ بِهِ أَمَةٌ سَوْدَاءُ فِي عُسٍّ يَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ، وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ وَلَوْ فِي عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا قَدَرْتَ عَلَى الْمَاءِ فَأَمِسَّهُ بَشَرَتَكَ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔