حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني عامر، قال: كنت كافرا، فهداني الله للإسلام، وكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، وقد نعت لي ابو ذر ، فحججت فدخلت مسجد منى فعرفته بالنعت، فإذا شيخ معروف آدم، عليه حلة قطري، فذهبت حتى قمت إلى جنبه وهو يصلي، فسلمت عليه فلم يرد علي، ثم صلى صلاة اتمها واحسنها، واطولها، فلما فرغ رد علي، قلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي ليزعمون ذلك! قال كنت كافرا فهداني الله للإسلام، واهمني ديني، وكنت اعزب عن الماء ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، قال: هل تعرف ابا ذر؟! قلت: نعم، قال: فإني اجتويت المدينة، قال ايوب او كلمة نحوها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود من إبل وغنم، فكنت اكون فيها، فكنت اعزب من الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة، فوقع في نفسي اني قد هلكت، فقعدت على بعير منها، فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم نصف النهار، وهو جالس في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فنزلت عن البعير، وقلت: يا رسول الله، هلكت، قال:" وما اهلكك؟" فحدثته فضحك، فدعا إنسانا من اهله، فجاءت جارية سوداء بعس فيه ماء، ما هو بملآن، إنه ليتخضخض، فاستترت بالبعير، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من القوم فسترني فاغتسلت، ثم اتيته، فقال: " إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء، ولو إلى عشر حجج، فإذا وجدت الماء فامس بشرتك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: كُنْتُ كَافِرًا، فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، وَقَدْ نُعِتَ لِي أَبُو ذَرٍّ ، فَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَ مِنًى فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَإِذَا شَيْخٌ مَعْرُوفٌ آدَمُ، عَلَيْهِ حُلَّةٌ قِطْرِيٌّ، فَذَهَبْتُ حَتَّى قُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، ثُمَّ صَلَّى صَلَاةً أَتَمَّهَا وَأَحْسَنَهَا، وَأَطْوَلَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ رَدَّ عَلَيَّ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي لَيَزْعُمُونَ ذَلِكَ! قَالَ كُنْتُ كَافِرًا فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَهَمَّنِي دِينِي، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، قَالَ: هَلْ تَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ أَيُّوبُ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ مِنْ إِبِلٍ وَغَنَمٍ، فَكُنْتُ أَكُونُ فِيهَا، فَكُنْتُ أَعْزُبُ مِنَ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنِّي قَدْ هَلَكْتُ، فَقَعَدْتُ عَلَى بَعِيرٍ مِنْهَا، فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِصْفَ النَّهَارِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَنَزَلْتُ عَنِ الْبَعِيرِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ، قَالَ:" وَمَا أَهْلَكَكَ؟" فَحَدَّثْتُهُ فَضَحِكَ، فَدَعَا إِنْسَانًا مِنْ أَهْلِهِ، فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ، مَا هُوَ بِمَلْآنَ، إِنَّهُ لَيَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالْبَعِيرِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْقَوْمِ فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ، وَلَوْ إِلَى عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّ بَشَرَتَكَ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔