حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " والزمہم کلمۃ التقوی " میں کلمہ تقوی سے مرادلا الہ الا اللہ ہے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، لكنه توبع، وعبدالله بن محمد حسن فى المتابعات والشواهد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، كنت إمام النبيين، وخطيبهم، وصاحب شفاعتهم غير فخر" ، والحديث على لفظ زكريا بن عدي.وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ، وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ" ، وَالْحَدِيثُ عَلَى لَفْظِ زَكَرِيَّا بْنِ عَدِيٍّ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔
حدثنا عبد الله، قال: حدثنا عيسى بن سالم ابو سعيد الشاشي في سنة ثلاثين ومئتين، حدثنا عبيد الله بن عمرو يعني الرقي ابو وهب ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن ابن ابي بن كعب ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إلى جذع، وكان المسجد عريشا، وكان يخطب إلى جنب ذلك الجذع، فقال رجال من اصحابه: يا رسول الله، نجعل لك شيئا تقوم عليه يوم الجمعة، حتى ترى الناس، او قال حتى يراك الناس، وحتى يسمع الناس خطبتك؟ قال:" نعم" فصنعوا له ثلاث درجات، فقام النبي صلى الله عليه وسلم كما كان يقوم، فصغا الجذع إليه، فقال له:" اسكن"، ثم قال لاصحابه :" هذا الجذع حن إلي"، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اسكن، إن تشا غرستك في الجنة، فياكل منك الصالحون، وإن تشا اعيدك كما كنت رطبا" فاختار الآخرة على الدنيا، فلما قبض النبي صلى الله عليه وسلم دفع إلى ابي، فلم يزل عنده حتى اكلته الارضة .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ سَالِمٍ أَبُو سَعِيدٍ الشَّاشِيُّ فِي سَنَةِ ثَلَاثِينَ وَمِئَتَيْنِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَعْنِي الرَّقِّيَّ أَبُو وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ ابْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ، وَكَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ إِلَى جَنْبِ ذَلِكَ الْجِذْعِ، فَقَالَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَجْعَلُ لَكَ شَيْئًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، حَتَّى تَرَى النَّاسَ، أَوْ قَالَ حَتَّى يَرَاكَ النَّاسُ، وَحَتَّى يَسْمَعَ النَّاسُ خُطْبَتَكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ" فَصَنَعُوا لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يَقُومُ، فَصَغَا الْجِذْعُ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ:" اسْكُنْ"، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ :" هَذَا الْجِذْعُ حَنَّ إِلَيَّ"، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْكُنْ، إِنْ تَشَأْ غَرَسْتُكَ فِي الْجَنَّةِ، فَيَأْكُلُ مِنْكَ الصَّالِحُونَ، وَإِنْ تَشَأْ أُعِيدُكَ كَمَا كُنْتَ رَطْبًا" فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُفِعَ إِلَى أُبَيٍّ، فَلَمْ يَزَلْ عِنْدَهُ حَتَّى أَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد به بهذه السياقة. واصل القصة صحيح دون قصة اخذ ابي بن كعب للجذع
حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الرحيم ابو يحيى البزاز ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا معاذ بن محمد بن معاذ بن محمد بن ابي بن كعب ، حدثني ابي محمد بن معاذ ، عن معاذ ، عن محمد ، عن ابي بن كعب ، ان ابا هريرة كان جريئا على ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن اشياء لا يساله عنها غيره، فقال: يا رسول الله، ما اول ما رايت في امر النبوة؟ فاستوى رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا، وقال: " لقد سالت ابا هريرة إني لفي صحراء ابن عشر سنين واشهر، وإذا بكلام فوق راسي، وإذا رجل يقول لرجل اهو هو؟ قال: نعم، فاستقبلاني بوجوه لم ارها لخلق قط، وارواح لم اجدها من خلق قط، وثياب لم ارها على احد قط، فاقبلا إلي يمشيان، حتى اخذ كل واحد منهما بعضدي، لا اجد لاخذهما مسا، فقال احدهما لصاحبه: اضجعه، فاضجعاني بلا قصر ولا هصر، فقال احدهما لصاحبه: افلق صدره، فهوى احدهما إلى صدري، ففلقها فيما ارى بلا دم ولا وجع، فقال له: اخرج الغل والحسد، فاخرج شيئا كهيئة العلقة، ثم نبذها فطرحها، فقال له: ادخل الرافة والرحمة، فإذا مثل الذي اخرج يشبه الفضة، ثم هز إبهام رجلي اليمنى، فقال: اغد واسلم فرجعت بها اغدو رقة على الصغير ورحمة للكبير" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ مُعَاذٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ جَرِيئًا عَلَى أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَشْيَاءَ لَا يَسْأَلُهُ عَنْهَا غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَوَّلُ مَا رَأَيْتَ فِي أَمْرِ النُّبُوَّةِ؟ فَاسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، وَقَالَ: " لَقَدْ سَأَلْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ إِنِّي لَفِي صَحْرَاءَ ابْنُ عَشْرِ سِنِينَ وَأَشْهُرٍ، وَإِذَا بِكَلَامٍ فَوْقَ رَأْسِي، وَإِذَا رَجُلٌ يَقُولُ لِرَجُلٍ أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَقْبَلَانِي بِوُجُوهٍ لَمْ أَرَهَا لِخَلْقٍ قَطُّ، وَأَرْوَاحٍ لَمْ أَجِدْهَا مِنْ خَلْقٍ قَطُّ، وَثِيَابٍ لَمْ أَرَهَا عَلَى أَحَدٍ قَطُّ، فَأَقْبَلَا إِلَيَّ يَمْشِيَانِ، حَتَّى أَخَذَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِعَضُدِي، لَا أَجِدُ لِأَخَذِهِمَا مَسًّا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَضْجِعْهُ، فَأَضْجَعَانِي بِلَا قَصْرٍ وَلَا هَصْرٍ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: افْلِقْ صَدْرَهُ، فَهَوَى أَحَدُهُمَا إِلَى صَدْرِي، فَفَلَقَهَا فِيمَا أَرَى بِلَا دَمٍ وَلَا وَجَعٍ، فَقَالَ لَهُ: أَخْرِجْ الْغِلَّ وَالْحَسَدَ، فَأَخْرَجَ شَيْئًا كَهَيْئَةِ الْعَلَقَةِ، ثُمَّ نَبَذَهَا فَطَرَحَهَا، فَقَالَ لَهُ: أَدْخِلْ الرَّأْفَةَ وَالرَّحْمَةَ، فَإِذَا مِثْلُ الَّذِي أَخْرَجَ يُشْبِهُ الْفِضَّةَ، ثُمَّ هَزَّ إِبْهَامَ رِجْلِي الْيُمْنَى، فَقَالَ: اغْدُ وَاسْلَمْ فَرَجَعْتُ بِهَا أَغْدُو رِقَّةً عَلَى الصَّغِيرِ وَرَحْمَةً لِلْكَبِيرِ" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بڑی جری تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ایسے سوالات پوچھ لیتے تھے جو دوسرے لوگ نہیں پوچھ سکتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ! امر نبوت کے حوالے سے آپ نے سب سے پہلے کیا دیکھا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابوہریرہ! تم نے اچھا سوال پوچھا میں دس سال چند ماہ کا تھا کہ ایک جنگل میں پھر رہا تھا اچانک مجھے اپنے سر کے اوپر سے کسی کی باتوں کی آواز آئی میں نے اوپر دیکھا تو ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ یہ وہی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں! چنانچہ وہ دونوں ایسے چہروں کے ساتھ میرے سامنے آئے جو میں نے اب تک کسی مخلوق کے نہیں دیکھے تھے ان میں سے ایسی مہک آرہی تھی جو میں نے اب تک کسی مخلوق سے نہیں سونگھی تھی اور انہوں نے ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جو میں نے کبھی کسی کے جسم پر نہ دیکھے تھے۔
وہ دونوں چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور ان میں سے ہر ایک نے مجھے ایک ایک بازو سے پکڑ لیا لیکن مجھے اس سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ اسے لٹا دو چنانچہ ان دونوں نے مجھے بغیر کسی کھینچا تانی اور تکلیف کے لٹا دیا پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ان کا سینہ چاک کردو، چنانچہ اس نے میری آنکھوں کے سامنے میرا سینہ اس طرح چاک کردیا کہ خون نکلا اور نہ ہی مجھے تکلیف ہوئی پھر پہلے نے دوسرے سے کہا کہ اس میں سے کینہ اور حسد نکال دو، چنانچہ اس نے خون کے جمے ہوئے ٹکڑے کی طرح کوئی چیز نکال کر پھینک دی پھر اس نے دوسرے سے کہا کہ اس میں نرمی اور مہربانی ڈال دو چنانچہ چاندی جیسی کوئی چیز لائی گئی (اور میرے سینے میں انڈیل دی گئی) پھر اس نے میرے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کو ہلا کر کہا جاؤ سلامت رہو چنانچہ میں اس کیفیت کے ساتھ واپس آیا کہ چھوٹوں کے لئے نرم دل اور بڑوں کے لئے رحم دل تھا۔
حدثنا عبد الله، حدثني ابي، حدثنا عفان ، حدثنا خالد بن الحارث ، وحدثنا عبد الله، قال وحدثنا الصلت بن مسعود الجحدري ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، حدثني ابي ، عن سليمان بن يسار ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: وقفت انا وابي بن كعب في ظل اجم حسان، فقال لي ابي: الا ترى الناس مختلفة اعناقهم في طلب الدنيا؟ قال: قلت: بلى، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يوشك الفرات ان يحسر عن جبل من ذهب، فإذا سمع به الناس ساروا إليه، فيقول من عنده، والله لئن تركنا الناس ياخذون فيه ليذهبن، فيقتتل الناس، حتى يقتل من كل مئة تسعة وتسعون"، وهذا لفظ حديث ابي، عن عفان .حَدَّثَنَا عَبْد الله، حَدَّثنِي أَبِي، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، وحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ وحَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مَسْعُودٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: وَقَفْتُ أَنَا وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فِي ظِلِّ أُجُمِ حَسَّانَ، فَقَالَ لِي أُبَيٌّ: أَلَا تَرَى النَّاسَ مُخْتَلِفَةً أَعْنَاقُهُمْ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَإِذَا سَمِعَ بِهِ النَّاسُ سَارُوا إِلَيْهِ، فَيَقُولُ مَنْ عِنْدَهُ، وَاللَّهِ لَئِنْ تَرَكْنَا النَّاسَ يَأْخُذُونَ فِيهِ لَيَذْهَبَنَّ، فَيَقْتَتِلُ النَّاسُ، حَتَّى يُقْتَلَ مِنْ كُلِّ مِئَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أُبَيٍّ، عَنْ عَفَّانَ .
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قلعہ حسان کے سائے میں کھڑے تھے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ مجھ سے فرمانے لگے کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ لوگ طلب دنیا میں کس قدر مبتلا ہوچکے ہیں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ سے ہٹ جائے گا لوگ جب یہ بات سنیں گے تو اس کی طرف چل پڑیں گے اور جو لوگ اس کے پاس موجود ہوں گے وہ کہیں گے کہ اگر ہم نے یہاں لوگوں کو آنے کی کھلی چھوٹ دے دی تو یہ سارا سونا تو وہ لے جائیں گے چنانچہ لوگ لڑیں گے حتیٰ کہ ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل ہوجائیں گے۔