حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور مکمل گھر تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے تعجب کرتے اور کہتے کہ اگر اس اینٹ کی جگہ بھی مکمل ہوجاتی (تو یہ عمارت مکمل ہوجاتی) انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میں اس اینٹ کی طرح ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور مکمل گھر تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے تعجب کرتے اور کہتے کہ اگر اس اینٹ کی جگہ بھی مکمل ہوجاتی (تو یہ عمارت مکمل ہوجاتی) انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میں اس اینٹ کی طرح ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد لأجل سعيد بن سلمة وعبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لولا الهجرة لكنت امرا من الانصار، ولو سلك الناس واديا او شعبا لكنت مع الانصار" .قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَكُنْتُ مَعَ الْأَنْصَارِ" .
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔
حدیث نمبر (٢١٥٦٥) اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حدثنا زكريا بن عدي ، اخبرنا عبيد الله بن عمرو ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن الطفيل بن ابي بن كعب ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرب إلى جذع إذ كان المسجد عريشا، وكان يخطب إلى ذلك الجذع، فقال رجل من اصحابه: يا رسول الله، هل لك ان تجعل لك شيئا تقوم عليه يوم الجمعة، حتى يراك الناس وتسمعهم خطبتك؟ قال: نعم، فصنع له ثلاث درجات اللاتي على المنبر، فلما صنع المنبر، ووضع في موضعه الذي وضعه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اراد ان ياتي المنبر مر عليه، فلما جاوزه خار الجذع، حتى تصدع وانشق، فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمسحه بيده حتى سكن، ثم رجع إلى المنبر، وكان إذا صلى، صلى إليه، فلما هدم المسجد وغير، اخذ ذاك الجذع ابي بن كعب، فكان عنده حتى بلي واكلته الارضة وعاد رفاتا" .حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُبُ إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ إِلَى ذَلِكَ الْجِذْعِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ أَنْ تَجْعَلَ لَكَ شَيْئًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، حَتَّى يَرَاكَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَصُنِعَ لَهُ ثَلَاثُ دَرَجَاتٍ اللَّاتِي عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ، وَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ الْمِنْبَرَ مَرَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا جَاوَزَهُ خَارَ الْجِذْعُ، حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى، صَلَّى إِلَيْهِ، فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ، أَخَذَ ذَاكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَكَانَ عِنْدَهُ حَتَّى بَلِيَ وَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة أخذ أبى بن كعب اللجذع، فهي ضعيفة لأجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل شريك، لكنه توبع، عبدالله بن محمد حسن فى المتابعات والشواهد
حدثنا احمد بن عبد الملك ، حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن جابر بن عبد الله ، قال: بينا نحن صفوفا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في الظهر او العصر، إذ رايناه يتناول شيئا بين يديه وهو في الصلاة لياخذه، ثم تناوله لياخذه، ثم حيل بينه وبينه، ثم تاخر وتاخرنا، ثم تاخر الثانية وتاخرنا، فلما سلم، قال ابي بن كعب : يا رسول الله، رايناك اليوم تصنع في صلاتك شيئا لم تكن تصنعه، قال: " إنه عرضت علي الجنة بما فيها من الزهرة، فتناولت قطفا من عنبها لآتيكم به، ولو اخذته لاكل منه من بين السماء والارض لا يتنقصونه، فحيل بيني وبينه، وعرضت علي النار، فلما وجدت حر شعاعها تاخرت، واكثر من رايت فيها النساء اللاتي إن اؤتمن افشين، وإن سالن احفين"، قال زكريا بن عدي الحفن وإن اعطين لم يشكرن، ورايت فيها لحي بن عمرو يجر قصبه، واشبه من رايت به معبد بن اكثم"، قال معبد: اي رسول الله، يخشى علي من شبهه، فإنه والد؟ قال:" لا، انت مؤمن وهو كافر" وهو اول من جمع العرب على الاصنام" ، حدثنا احمد بن عبد الملك ، حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو ، حدثنا عبد الله بن محمد ، عن الطفيل بن ابي ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ صُفُوفًا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ، إِذْ رَأَيْنَاهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ لِيَأْخُذَهُ، ثُمَّ تَنَاوَلَهُ لِيَأْخُذَهُ، ثُمَّ حِيلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ، ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرْنَا، ثُمَّ تَأَخَّرَ الثَّانِيَةَ وَتَأَخَّرْنَا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ الْيَوْمَ تَصْنَعُ فِي صَلَاتِكَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ، قَالَ: " إِنَّهُ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ بِمَا فِيهَا مِنَ الزَّهْرَةِ، فَتَنَاوَلْتُ قِطْفًا مِنْ عِنَبِهَا لِآتِيَكُمْ بِهِ، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلَ مِنْهُ مَنْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَتَنَقَّصُونَهُ، فَحِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَلَمَّا وَجَدْتُ حَرَّ شُعَاعِهَا تَأَخَّرْتُ، وَأَكْثَرُ مَنْ رَأَيْتُ فِيهَا النِّسَاءُ اللَّاتِي إِنْ اؤْتُمِنَّ أَفْشَيْنَ، وَإِنْ سَأَلْنَ أَحْفَيْنَ"، قَالَ زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ أَلْحَفْنَ وَإِنْ أُعْطِينَ لَمْ يَشْكُرْنَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا لُحَيَّ بْنَ عَمْرٍو يَجُرُّ قُصْبَهُ، وَأَشْبَهُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ مَعْبَدُ بْنُ أَكْثَمَ"، قَالَ مَعْبَدٌ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، يُخْشَى عَلَيَّ مِنْ شَبَهِهِ، فَإِنَّهُ وَالِدٌ؟ قَالَ:" لَا، أَنْتَ مُؤْمِنٌ وَهُوَ كَافِرٌ" وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ الْعَرَبَ عَلَى الْأَصْنَامِ" ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ نماز ظہر یا عصر میں صف بستہ کھڑے ہوئے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں پھر وہ پیچھے ہٹنے لگے تو لوگ بھی پیچھے ہوگئے نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے ایسے کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے جنت کو اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ پیش کیا گیا میں نے انگوروں کا ایک گچھا توڑنا چاہا تاکہ تمہیں دے دوں لیکن پھر کوئی چیز درمیان میں حائل ہوگئی اگر وہ میں تمہارے پاس لے آتا اور سارے آسمان و زمین والے اسے کھاتے تب بھی اس میں کوئی کمی نہ ہوتی، پھر میرے سامنے جہنم کو پیش کیا گیا جب میں نے اس کی بھڑک کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹ گیا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے جنہیں اگر کوئی راز بتایا جائے تو اسے افشاء کردیتی ہیں کچھ مانگا جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں خود کسی سے مانگیں تو انتہائی اصرار کرتی ہیں (مل جائے تو شکر نہیں کرتیں) میں نے وہاں لحی بن عمرو کو بھی دیکھا جو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا اور میں نے اس کے سب سے زیادہ مشابہہ معبد بن اکثم کعبی کو دیکھا ہے اس پر معبد کہنے لگے یا رسول اللہ! اس کی مشابہت سے مجھے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تو نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم مسلمان ہو اور وہ کافر تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے اہل عرب کو بت پرستی پر جمع کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد به بهذه السياقة، وهو من مسند جابر بن عبدالله
حدثنا احمد بن عبد الملك: حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو حدثنا عبد الله بن محمد عن الطفيل بن ابي عن ابيه عن النبي مثلهحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرِو حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الطَّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ مثله
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد بسياقته
حدثنا عبد الله، حدثنا سعيد بن ابي الربيع السمان ابو بكر ، اخبرني سعيد بن سلمة بن ابي الحسام المديني ، حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل بن ابي طالب ، عن الطفيل بن ابي ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي إلى جذع إذ كان المسجد عريشا، وكان يخطب الناس إلى جانب ذلك الجذع"، فقال رجل من اصحابه: يا رسول الله، هل لك ان اجعل لك منبرا تقوم عليه يوم الجمعة، حتى يرى الناس خطبتك؟ قال: " نعم، فصنع له ثلاث درجات هي التي على المنبر"، فلما قضي المنبر، ووضع في موضعه الذي وضعه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بدا لرسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقوم على ذلك المنبر، فمر إليه، فلما ان جاوز الجذع الذي كان يخطب إليه ويقوم إليه، خار إليه ذلك الجذع حتى تصدع وانشق، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمع صوت الجذع فمسحه بيده، ثم رجع إلى المنبر، وكان إذا صلى مع ذلك مال إلى الجذع، يقول الطفيل فلما هدم المسجد وغير اخذ ابوه ابي بن كعب ذلك الجذع، فكان عنده في بيته حتى بلي واكلته الارض، وعاد رفاتا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ السَّمَّانُ أَبُو بَكْرٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ أَبِي الْحُسَامِ الْمَدِينِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ النَّاسَ إِلَى جَانِبِ ذَلِكَ الْجِذْعِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ أَنْ أَجْعَلَ لَكَ مِنْبَرًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، حَتَّى يَرَى النَّاسُ خُطْبَتَكَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، فَصَنَعَ لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ هِيَ الَّتِي عَلَى الْمِنْبَرِ"، فَلَمَّا قُضِيَ الْمِنْبَرُ، وَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُومَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ، فَمَرَّ إِلَيْهِ، فَلَمَّا أَنْ جَاوَزَ الْجِذْعَ الَّذِي كَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ وَيَقُومُ إِلَيْهِ، خَارَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الْجِذْعُ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى مَعَ ذَلِكَ مَالَ إِلَى الْجِذْعِ، يَقُولُ الطُّفَيْلُ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ أَبُوهُ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ذَلِكَ الْجِذْعَ، فَكَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ حَتَّى بَلِيَ وَأَكَلَتْهُ الْأَرَضُ، وَعَادَ رُفَاتًا .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة أخذ أبى للجزع وقد تفرد بها عبدالله بن محمد، فمثله لا يقبل تفرده، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن سلمة ، لكنه توبع