حدثنا عبد الله، حدثنا سعيد بن ابي الربيع السمان ابو بكر ، اخبرني سعيد بن سلمة بن ابي الحسام المديني ، حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل بن ابي طالب ، عن الطفيل بن ابي ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي إلى جذع إذ كان المسجد عريشا، وكان يخطب الناس إلى جانب ذلك الجذع"، فقال رجل من اصحابه: يا رسول الله، هل لك ان اجعل لك منبرا تقوم عليه يوم الجمعة، حتى يرى الناس خطبتك؟ قال: " نعم، فصنع له ثلاث درجات هي التي على المنبر"، فلما قضي المنبر، ووضع في موضعه الذي وضعه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بدا لرسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقوم على ذلك المنبر، فمر إليه، فلما ان جاوز الجذع الذي كان يخطب إليه ويقوم إليه، خار إليه ذلك الجذع حتى تصدع وانشق، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمع صوت الجذع فمسحه بيده، ثم رجع إلى المنبر، وكان إذا صلى مع ذلك مال إلى الجذع، يقول الطفيل فلما هدم المسجد وغير اخذ ابوه ابي بن كعب ذلك الجذع، فكان عنده في بيته حتى بلي واكلته الارض، وعاد رفاتا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ السَّمَّانُ أَبُو بَكْرٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ أَبِي الْحُسَامِ الْمَدِينِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ النَّاسَ إِلَى جَانِبِ ذَلِكَ الْجِذْعِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ أَنْ أَجْعَلَ لَكَ مِنْبَرًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، حَتَّى يَرَى النَّاسُ خُطْبَتَكَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، فَصَنَعَ لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ هِيَ الَّتِي عَلَى الْمِنْبَرِ"، فَلَمَّا قُضِيَ الْمِنْبَرُ، وَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُومَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ، فَمَرَّ إِلَيْهِ، فَلَمَّا أَنْ جَاوَزَ الْجِذْعَ الَّذِي كَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ وَيَقُومُ إِلَيْهِ، خَارَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الْجِذْعُ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى مَعَ ذَلِكَ مَالَ إِلَى الْجِذْعِ، يَقُولُ الطُّفَيْلُ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ أَبُوهُ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ذَلِكَ الْجِذْعَ، فَكَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ حَتَّى بَلِيَ وَأَكَلَتْهُ الْأَرَضُ، وَعَادَ رُفَاتًا .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة أخذ أبى للجزع وقد تفرد بها عبدالله بن محمد، فمثله لا يقبل تفرده، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن سلمة ، لكنه توبع