حدثنا روح ، وابو داود ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، قال ابو داود : حدثنا علي بن زيد ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، قال: " اخر رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء تسع ليال قال ابو داود ثمان ليال إلى ثلث الليل"، فقال ابو بكر: يا رسول الله، لو انك عجلت لكان امثل لقيامنا من الليل، قال:" فعجل بعد ذلك" ، وحدثنا عبد الصمد ، فقال في حديثه: تسع ليال، وقال عفان : سبع ليال.حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، وَأَبُو دَاوُدَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: " أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ تِسْعَ لَيَالٍ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ثَمَانِ لَيَالٍ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّكَ عَجَّلْتَ لَكَانَ أَمْثَلَ لِقِيَامِنَا مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ:" فَعَجَّلَ بَعْدَ ذَلِكَ" ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: تِسْعَ لَيَالٍ، وَقَالَ عَفَّانُ : سَبْعَ لَيَالٍ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نو راتوں تک نماز عشاء کو تہائی رات میں مؤخر کیا حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کی یا رسول اللہ اگر آپ یہ نماز جلدی پڑھادیں تو ہمارے لئے قیام اللیل میں سہولت ہوجائے چنانچہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جلدی پڑھانے لگے۔
حدثنا محبوب بن الحسن ، عن خالد ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، ان رجلا مدح صاحبا له عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ويلك قطعت عنقه، إن كنت مادحا لا محالة فقل احسبه كذا وكذا، والله حسيبه، ولا ازكي على الله تعالى احدا" .حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مَدَحَ صَاحِبًا لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَهُ، إِنْ كُنْتَ مَادِحًا لَا مَحَالَةَ فَقُلْ أَحْسَبُهُ كَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ تَعَالَى أَحَدًا" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک آدمی نے دوسرے کی تعریف کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس تم نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی اور فرمایا اگر تم میں سے کسی نے اپنے بھائی کی تعریف ضرور ہی کرنا ہو تو اسے یوں کہنا چاہئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلاں آدمی اس طرح دکھائی دیتا ہے اور میں اللہ کے سامنے کسی کی پاکی بیان نہیں کرتا اور اس کا حقیقی نگہبان اللہ ہی ہے میں اسی طرح سمجھتا ہوں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، قال: سمعت عبد رب بن سعيد وقال: بهز عبد ربه يحدث، عن ابي عبد الله مولى ابي موسى، عن سعيد بن ابي الحسن ، قال: دخل علينا ابو بكرة في شهادة، فقام له رجل من مجلسه، فقال ابو بكرة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يقم الرجل الرجل من مجلسه، ثم يقعد فيه"، او قال: " إذا اقام الرجل الرجل من مجلسه، فلا يجلس فيه، ولا يمسح الرجل يده بثوب من لا يملك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ رَبِّ بْنَ سَعِيدٍ وَقَالَ: بَهْزٌ عَبْدَ رَبِّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَبِي مُوسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرَةَ فِي شَهَادَةٍ، فَقَامَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ مَجْلِسِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُقِمْ الرَّجُلَ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَقْعُدُ فِيهِ"، أَوْ قَالَ: " إِذَا أَقَامَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ، فَلَا يَجْلِسْ فِيهِ، وَلَا يَمْسَحْ الرَّجُلُ يَدَهُ بِثَوْبِ مَنْ لَا يَمْلِكُ" .
ایک مرتبہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو کسی معاملے میں گواہی کے لئے بلایا گیا تو وہ تشریف لائے تو ایک آدمی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی اس جگہ سے کھڑا ہو اور دوسرا اس کی جگہ بیٹھ جائے اور اس بات سے بھی انسان ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى عبدالله ابن مولى أبى موسى
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک جہینہ ' اسلم ' غفار ' اور مزینہ قبیلے لے لوگ بنوتمیم ' اور بنوعامر بن صعصہ سے بہتر ہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، وعبد الوهاب ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يقولن احدكم إني قمت رمضان كله"، قال: فالله اعلم اخشي على امته ان تزكي انفسها ، قال عبد الوهاب فالله اعلم اخشي التزكية على امته، او قال: لا بد من نوم او غفلة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنِّي قُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ"، قَالَ: فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَخَشِيَ عَلَى أُمَّتِهِ أَنْ تُزَكِّيَ أَنْفُسَهَا ، قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَخَشِيَ التَّزْكِيَةَ عَلَى أُمَّتِهِ، أَوْ قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ نَوْمٍ أَوْ غَفْلَةٍ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں نے سارے رمضان قیام کیا اب اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق خود ہی اپنی پاکیزگی بیان کرنے میں اندیشہ ہوا یا اس وجہ سے فرمایا کہ ننید اور غفلت سے بھی تو کوئی چھٹکارا نہیں ہے۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، وعفان ، حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقولن احدكم قمت رمضان كله" ، قال قتادة: فالله اعلم اخشي على امته التزكية، قال عفان: او قال: لا بد من راقد او غافل.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، وَعَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ" ، قَالَ قَتَادَةُ: فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَخَشِيَ عَلَى أُمَّتِهِ التَّزْكِيَةَ، قَالَ عَفَّانُ: أَوْ قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ رَاقِدٍ أَوْ غَافِلٍ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں نے سارے رمضان قیام کیا ہے (کیونکہ غفلت یا نیند آجانے سے کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ کسی دن سوتا رہ جائے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن البصري مدلس، وقد عنعن
حدثنا روح ، حدثنا عثمان الشحام ، حدثنا مسلم بن ابي بكرة ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إنها ستكون فتن، ثم تكون فتنة، الا فالماشي فيها خير من الساعي إليها، الا والقاعد فيها خير من القائم فيها، الا والمضطجع فيها خير من القاعد، الا إذا نزلت، فمن كانت له غنم فليلحق بغنمه، الا ومن كانت له ارض فليلحق بارضه، الا ومن كانت له إبل فليلحق بإبله"، فقال رجل من القوم: يا نبي الله، جعلني الله فداءك، ارايت من ليست له غنم ولا ارض ولا إبل، كيف يصنع؟ قال" لياخذ سيفه، ثم ليعمد به إلى صخرة، ثم ليدق على حده بحجر، ثم لينج إن استطاع النجاء، اللهم هل بلغت؟ اللهم هل بلغت؟" إذ قال رجل يا نبي الله جعلني الله فداءك، ارايت إن اخذ بيدي مكرها حتى ينطلق بي إلى احد الصفين او إحدى الفئتين، عثمان يشك فيجذفني رجل بسيفه، فيقتلني، ماذا يكون من شاني؟ قال:" يبوء بإثمك وإثمه، ويكون من اصحاب النار" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتَنٌ، ثُمَّ تَكُونُ فِتَنَةٌ، أَلَا فَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي إِلَيْهَا، أَلَا وَالْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ فِيهَا، أَلَا وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ، أَلَا إِذَا نَزَلَتْ، فَمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ، أَلَا وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ، أَلَا وَمَنْ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، أَرَأَيْتَ مَنْ لَيْسَتْ لَهُ غَنَمٌ وَلَا أَرْضٌ وَلَا إِبِلٌ، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ قَالَ" لِيَأْخُذْ سَيْفَهُ، ثُمَّ لِيَعْمِدْ بِهِ إِلَى صَخْرَةٍ، ثُمَّ لِيَدُقَّ عَلَى حَدِّهِ بِحَجَرٍ، ثُمَّ لِيَنْجُ إِنْ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟" إِذْ قَالَ رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، أَرَأَيْتَ إِنْ أُخِذَ بِيَدِي مُكْرَهًا حَتَّى يُنْطَلَقَ بِي إِلَى أَحَدِ الصَّفَّيْنِ أَوْ إِحْدَى الْفِئَتَيْنِ، عُثْمَانُ يَشُكُّ فَيَجْذِفَنِي رَجُلٌ بِسَيْفِهِ، فَيَقْتُلَنِي، مَاذَا يَكُونُ مِنْ شَأْنِي؟ قَالَ:" يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ، وَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنے رونما ہوں گے جن میں لیٹا ہوا آدمی بیٹھے ہوئے سے اور بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے سے اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں چلاجائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریوں میں چلا جائے اور جس کے پاس زمین ہو وہ اپنی زمین میں چلا جائے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ اپنی تلوار پکڑے اور اس کی دھار کو ایک چٹان پردے مارے۔ اور اگر بچ سکتا ہو تو بچ جائے۔ اے اللہ کیا میں نے پہنچادیا دو مرتبہ کہا ایک آدمی نے پوچھا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اللہ مجھے آپ پر فدا کرے یہ بتائیے کہ اگر کوئی شخص زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر کسی صف یا گروہ میں لے جائے وہاں کوئی آدمی مجھ پر تلوار سے حملہ کردے اور مجھے قتل کردے تو میرا کیا بنے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص تمہارا اپنا گناہ لے کر لوٹے گا اور اہل جہنم میں سے ہوجائے گا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ کون سا انسان سب سے بہتر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو سائل نے پوچھا کہ سب سے بدترین انسان کون ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل برا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد