حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی معاہد کو ناحق قتل کردے اللہ اس کی جنت کو مہک حرام قرار دے دیتا ہے۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن عبد الملك بن عمير ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايتم إن كان جهينة واسلم وغفار ومزينة خيرا عند الله من بني اسد، ومن بني تميم، ومن بني عبد الله بن غطفان، ومن بني عامر بن صعصعة"، فقال رجل: قد خابوا وخسروا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هم خير من بني تميم، ومن بني عامر بن صعصعة، ومن بني اسد، ومن بني عبد الله بن غطفان" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ جُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَيْنَةُ خَيْرًا عِنْدَ اللَّهِ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، وَمِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَمِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَمِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمْ خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَمِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَمِنْ بَنِي أَسَدٍ، وَمِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ اگر اللہ کے نزدیک جہینہ، اسلم، غفار اور مزینہ قبیلے کے لوگ بنواسد اور بنوتمیم، بنوغطفان اور بنوعامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں تو ان میں ایک آدمی نے عرض کیا وہ نامراد اور خسارے میں رہیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ بنوتمیم اور بنوعامر اور بنواسد اور بنوغطفان سے بہتر ہیں۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا الجريري ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: وقال إسماعيل مرة كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال" الا انبئكم باكبر الكبائر؟ الإشراك بالله..." قال: وذكر الكبائر عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين"، وكان متكئا فجلس وقال:" وشهادة الزور، وشهادة الزور، وشهادة الزور" او" قول الزور، وشهادة الزور"، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكررها، حتى قلنا: ليته سكت .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ" أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ..." قَالَ: وَذُكِرَ الْكَبَائِرُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ"، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ وَقَالَ:" وَشَهَادَةُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ" أَوْ" قَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ"، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَرِّرُهَا، حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کبیرہ گناہوں کا تذکرہ چل پڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک لگائی ہوئی تھی سیدھے ہو کر بیٹھے پھر کئی مرتبہ فرمایا جھوٹی گواہ جھوٹی بات یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مرتبہ فرمائی کہ ہم سوچنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجاتے۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن محمد بن سيرين ، عن ابي بكرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب في حجته، فقال:" الا إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض، السنة اثنا عشر شهرا، منها اربعة حرم، ثلاث متواليات ذو القعدة، وذو الحجة، والمحرم، ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان"، ثم قال:" الا اي يوم هذا؟" قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال:" اليس يوم النحر؟" قلنا: بلى، ثم قال:" اي شهر هذا؟" قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال: اليس ذا الحجة؟" قلنا: بلى، ثم قال:" اي بلد هذا؟" قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال:" اليست البلدة؟" قلنا: بلى، قال:" فإن دماءكم واموالكم قال: واحسبه قال: واعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، وستلقون ربكم فيسالكم عن اعمالكم، الا لا ترجعون بعدي ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض، الا هل بلغت؟! الا ليبلغ الشاهد الغائب منكم، فلعل من يبلغه يكون اوعى له من بعض من يسمعه" ، قال محمد: وقد كان ذاك، قال: قد كان بعض من بلغه اوعى له من بعض من سمعه.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فِي حَجَّتِهِ، فَقَالَ:" أَلَا إِنَّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ"، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ:" أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟" قُلْنَا: بَلَى، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟" قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟" قُلْنَا: بَلَى، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟" قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ:" أَلَيْسَتْ الْبَلْدَةَ؟" قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، أَلَا لَا تَرْجِعُونَ بَعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟! أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ مِنْكُمْ، فَلَعَلَّ مَنْ يُبَلَّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ يَسْمَعُهُ" ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: قَدْ كَانَ بَعْضُ مَنْ بُلِّغَهُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یاد رکھو کہ زمانہ اپنی اس اصلی حالت پر واپس آگیا ہے جس پر وہ اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں سے چار مہینے اشہر حرام ہیں ان میں سے تین تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ذی الحج اور محرم ہے اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتا ہے پھر فرمایا یہ بتاؤ کہ آج کون سا دن ہے ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے۔ کہ ہم یہ سمجھے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم یہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق خاموش رہے پھر فرمایا کیا یہ شہر حرم نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری جان اور مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ اس شہر میں اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ یاد رکھو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا تم میں سے جو موجود ہے وہ غائبین تک یہ پیغام پہنچادے کیونکہ بعض اوقات جسے پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے راوی کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 67، م: 1679، لم يثبت سماع محمد بن سيرين من أبى بكرة، وقد توبع ابن سيرين
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن محمد يعني ابن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابي بكرة ، قال: لما كان ذلك اليوم، قعد النبي صلى الله عليه وسلم على بعير، واخذ رجل بزمامه او بخطامه، فقال:" اي يوم يومكم هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال:" اليس بالنحر؟" قال: قلنا: بلى، قال:" فاي شهر شهركم هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، فقال:" اليس بذي الحجة؟" قال: قلنا: بلى، قال:" فاي بلد بلدكم هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، فقال" اليس بالبلدة؟" قال: قلنا: بلى، قال:" فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا فليبلغ الشاهد الغائب، فإن الشاهد عسى ان يبلغه من هو اوعى له منه" ، قال محمد: فقال رجل: قد كان ذاك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ، قَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعِيرٍ، وَأَخَذَ رَجُلٌ بِزِمَامِهِ أَوْ بِخِطَامِهِ، فَقَالَ:" أَيُّ يَوْمٍ يَوْمُكُمْ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ:" أَلَيْسَ بِالنَّحْرِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَأَيُّ شَهْرٍ شَهْرُكُمْ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَأَيُّ بَلَدٍ بَلَدُكُمْ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، فَقَالَ" أَلَيْسَ بِالْبَلْدَةِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَهُ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ" ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَقَالَ رَجُلٌ: قَدْ كَانَ ذَاكَ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دینے کے لئے اونٹ پر سوار ہوئے ایک آدمی نے اس کی لگام پکڑ لی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے۔ کہ ہم یہ سمجھے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم یہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق خاموش رہے پھر فرمایا کیا یہ شہر حرم نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری جان اور مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ اس شہر میں اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ یاد رکھو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچادیا تم میں سے جو موجود ہے وہ غائبین تک یہ پیغام پہنچادے کیونکہ بعض اوقات جسے پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے راوی کہتے ہیں کہ ایساہی ہوا۔
حدثنا عبد الاعلى ، وربعي بن إبراهيم المعنى، قالا: حدثنا يونس ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام يجر ثوبه مستعجلا حتى اتى المسجد، وثاب الناس فصلى ركعتين، فجلي عنها، ثم اقبل علينا فقال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله يخوف بهما عباده، ولا ينكسفان لموت احد"، قال: وكان ابنه إبراهيم عليه السلام مات،" فإذا رايتم منهما شيئا فصلوا وادعوا حتى يكشف منهما ما بكم" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، وَرِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُسْتَعْجِلًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، وَثَابَ النَّاسُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَجُلِّيَ عَنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ، وَلَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُهُ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام مَاتَ،" فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمَا شَيْئًا فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مِنْهُمَا مَا بِكُمْ" ..
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے نکلے اور مسجد پہنچے لوگ بھی جلدی سے آگئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں حتی کہ سورج مکمل روشن ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا دراصل اسی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھا کرو تو نماز پڑھ کر دعا کیا کرو یہاں تک کہ مصیبت ٹل جائے۔
حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا المبارك ، عن الحسن ، عن ابي بكرة انه حدثه، قال: انكسفت الشمس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم ونحن عنده، فوثب فزعا يجر ثوبه... فذكر معناه.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَوَثَبَ فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ... فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
حدثنا سفيان ، عن ابي موسى ويقال له: إسرائيل، قال: سمعت الحسن ، قال: سمعت ابا بكرة ، وقال سفيان مرة: عن ابي بكرة، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وحسن معه، وهو يقبل على الناس مرة وعليه مرة، ويقول" إن ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي مُوسَى وَيُقَالُ لَهُ: إِسْرَائِيلُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَحَسَنٌ مَعَهُ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ مَرَّةً، وَيَقُولُ" إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا حضرت امام حسن بھی ان کے ہمراہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی امام حسن کو دیکھتے اور فرماتے میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔