حدثنا إسماعيل ، حدثنا الجريري ، عن ابي السليل ، قال: حدثتني مجيبة عجوز من باهلة، عن ابيها او عن عمها , قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجة مرة، فقال: " من انت؟" قال: او ما تعرفني؟ قال:" ومن انت؟" قال: انا الباهلي الذي اتيتك عام اول , قال:" فإنك اتيتني وجسمك ولونك وهيئتك حسنة، فما بلغ بك ما ارى؟" فقال: إني والله ما افطرت بعدك إلا ليلا , قال:" من امرك ان تعذب نفسك؟" ثلاث مرات صم شهر الصبر رمضان" قلت: إني اجد قوة، وإني احب ان تزيدني , فقال:" فصم يوما من الشهر" قلت: إني اجد قوة، وإني احب ان تزيدني , قال:" فيومين من الشهر" قلت: إني اجد قوة، وإني احب ان تزيدني , قال:" وما تبغي عن شهر الصبر، ويومين في الشهر؟" قال: قلت: إني اجد قوة، وإني احب ان تزيدني , قال:" فثلاثة ايام من الشهر" قال: والحم عند الثالثة، فما كاد، قلت: إني اجد قوة، وإني احب ان تزيدني , قال:" فمن الحرم، وافطر" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُجِيبَةُ عَجُوزٌ مِنْ بِاهِلَةَ، عَنْ أَبِيهَا أَوْ عَنْ عَمِّهَا , قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ مَرَّةً، فَقَالَ: " مَنْ أَنْتَ؟" قَالَ: أَوَ مَا تَعْرِفُنِي؟ قَالَ:" وَمَنْ أَنْتَ؟" قَالَ: أَنَا الْبَاهِلِيُّ الَّذِي أَتَيْتُكَ عَامَ أَوَّلٍ , قَالَ:" فَإِنَّكَ أَتَيْتَنِي وَجِسْمُكَ وَلَوْنُكَ وَهَيْئَتُك حَسَنَةٌ، فَمَا بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى؟" فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَفْطَرْتُ بَعْدَكَ إِلَّا لَيْلًا , قَالَ:" مَنْ أَمَرَكَ أَنْ تُعَذِّبَ نَفْسَكَ؟" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ رَمَضَانَ" قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَزِيدَنِي , فَقَالَ:" فَصُمْ يَوْمًا مِنَ الشَّهْرِ" قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَزِيدَنِي , قَالَ:" فَيَوْمَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ" قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَزِيدَنِي , قَالَ:" وَمَا تَبْغِي عَنْ شَهْرِ الصَّبْرِ، وَيَوْمَيْنِ فِي الشَّهْرِ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَزِيدَنِي , قَالَ:" فَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ" قَالَ: وَأَلْحَمَ عِنْدَ الثَّالِثَةِ، فَمَا كَادَ، قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَزِيدَنِي , قَالَ:" فَمِنْ الْحُرُمِ، وَأَفْطِرْ" .
مجیبہ اپنے والد یا چچا سے نقل کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے کسی کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کون ہو عرض کیا کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم ہو کون عرض کیا میں باہلی ہوں۔ جو گزشتہ سال بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت جب تم آئے تھے تمہارا جسم تمہاری رنگت بہت عمدہ تھی اور اب جو حالت میں دیکھ رہا ہوں اس میں تمہیں کس چیز نے پہنچایا عرض کیا اللہ کی قسم آپ کے پاس سے جانے کے بعد صرف رات کے وقت ہی میں نے افطار کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا تمہیں اپنے آپ کو سزا دینے کا کس نے حکم دیا ہے ماہ صبر یعنی رمضان کے روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ اس میں کچھ اضافہ کردیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے ایک روزہ رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ اس میں کچھ اضافہ کردیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مہینے دو روزے رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ اس میں کچھ اضافہ کردیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے تین روزے رکھ لیا کرو اب یہاں پہنچ کر رک گئے میں نے پھر وہی عرض کیا پھر اشہر حرام میں روزے رکھا کرو پھر افطار بھی کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: وهذا إسناد ضعيف لجهالة مجيبة
حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن عبد الله بن عثمان الثقفي ، ان رجلا اعور من ثقيف , قال قتادة: كان يقال له معروف، اي يثنى عليه خيرا، يقال له: زهير بن عثمان , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الوليمة حق، واليوم الثاني معروف، واليوم الثالث سمعة ورياء" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ الثَّقَفِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا أَعْوَرَ مِنْ ثَقِيفٍ , قَالَ قَتَادَةُ: كَانَ يُقَالُ لَهُ مَعْرُوفٌ، أَيْ يُثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، يُقَالُ لَهُ: زُهَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلِيمَةُ حَقٌّ، وَالْيَوْمُ الثَّانِي مَعْرُوفٌ، وَالْيَوْمُ الثَّالِثُ سُمْعَةٌ وَرِيَاءٌ" .
قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف میں معروف نام کے ایک صاحب تھے جن کی ایک آنکھ کام نہیں کرتی تھی ان کا اصل نام زہیر بن عثمان تھا وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ولیمہ برحق ہے دوسرے دن کھانا نیکی ہے اور تیسرے دن بھی کھلانا شہرت اور دکھلاوے کے لئے ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله بن عثمان، وزهير بن عثمان مختلف فى صحبته
قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف میں معروف نام کے ایک صاحب تھے جن کی ایک آنکھ کام نہیں کرتی تھی ان کا اصل نام زہیر بن عثمان تھا وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ولیمہ برحق ہے دوسرے کھانا نیکی ہے اور تیسرے دن بھی کھلانا شہرت اور دکھلاوے کے لئے ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، قال: كان ابو قلابة حدثني بهذا الحديث، ثم قال لي: هل لك في الذي حدثنيه؟ قال: فدلني عليه، فاتيته، فقال: حدثني قريب لي يقال له: انس بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في إبل لجار لي اخذت، فوافقته وهو ياكل، فدعاني إلى طعامه، فقلت: إني صائم , فقال:" ادن" او قال:" هلم اخبرك عن ذلك، إن الله تبارك وتعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة، وعن الحبلى والمرضع" , قال: كان بعد ذلك يتلهف ويقول: الا اكون اكلت من طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين دعاني إليه! , حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابو هلال ، حدثنا عبد الله بن سوادة القشيري ، عن انس بن مالك , احد بني كعب، اخو بني قشير , قال: اغارت علينا خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتهيت إليه وهو ياكل، فقال لي:" ادن فكل" فقلت: إني صائم، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: كَانَ أَبُو قِلَابَةَ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، ثُمّ قَالَ لِي: هَلْ لَكَ فِي الَّذِي حَدَّثَنِيهِ؟ قَالَ: فَدَلَّنِي عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي قَرِيبٌ لِي يُقَالُ لَهُ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلٍ لِجَارٍ لِي أُخِذَتْ، فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَدَعَانِي إِلَى طَعَامِهِ، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ , فَقَالَ:" ادْنُ" أَوْ قَالَ:" هَلُمَّ أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ" , قَالَ: كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَلَهَّفُ ويَقُولُ: أَلَا أَكُونُ أَكَلْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَعَانِي إِلَيْهِ! , حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَحَدُ بَنِي كَعْبٍ، أَخُو بَنِي قُشَيْرٍ , قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَقَالَ لِيَ:" ادْنُ فَكُلْ" فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت انس بن مالک جو بنی عبداللہ بن کعب میں سے تھے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سواروں نے ہم پر شب خون مارا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کرنے کے لئے آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناشتہ فرما رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ اور کھاؤ میں نے عرض کی میں روزے سے ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھو میں تہیں روزے کے متعلق بتاتا ہوں اللہ نے مسافر سے نصف نماز اور مسافر حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت سے روزہ معاف فرمادیا ہے واللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں باتیں یا ان میں سے ایک بات کہی تھی ہائے افسوس میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کیوں نہ کھایا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا اسناد ضعيف لابهام الراوي الذى حديث عن انس
حدثنا عبد الصمد حدثنا ابو هلال حدثنا عبد الله بن سوادة القشيري عن انس بن مالك احد بني كعب اخو بني قشير قال: اغارت علينا خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فانتهيت إليه وهو ياكل فقال لي:" ادن فكل" فقلت: إني صائم فذكر الحديثحَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَحَدُ بَنِي كَعْبٍ أَخُو بَنِي قُشَيْرٍ قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لِيَ:" ادْنُ فَكُلْ" فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبى هلال، فإنه ضعيف لكن يعتبر فى المتابعات والشواهد
حضرت ابی بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور پھر بھی جہنم میں چلا جائے تو وہ اللہ کی رحمت سے بہت دور جا پڑا۔
ابومنہال خزاعی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دن قبیلہ اسلم کے لوگوں سے فرمایا آج کے دن کا روزہ رکھو وہ کہنے لگے کہ ہم تو کھا پی چکے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بقیہ دن کچھ نہ کھانا پینا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة عبدالرحمن بن سلمة
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت علي بن زيد يحدث، عن زرارة بن اوفى ، عن رجل من قومه يقال له: مالك او ابن مالك يحدث , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ايما مسلم ضم يتيما بين ابوين مسلمين إلى طعامه وشرابه حتى يستغني، وجبت له الجنة البتة، وايما مسلم اعتق رقبة او رجلا مسلما، كانت فكاكه من النار، ومن ادرك والديه او احدهما فدخل النار، فابعده الله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكٌ أَوْ ابْنُ مَالِكٍ يُحَدِّثُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَيُّمَا مُسْلِمٍ ضَمَّ يَتِيمًا بَيْنَ أَبَوَيْنِ مُسْلِمَيْنِ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ الْبَتَّةَ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَعْتَقَ رَقَبَةً أَوْ رَجُلًا مُسْلِمًا، كَانَتْ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ" .
حضرت مالک بن حارث سے مروی ہے کہ رسول اللہ کو انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مستغنی نہیں ہوجاتا خود کمانے لگ جاتا ہے تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے جو شخص کسی مسلمان آدمی کو آزاد کرتا ہے وہ جہنم سے اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور آزاد ہونے والے کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے اور جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور پھر جہنم میں داخل ہوجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور جا پڑا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا هشيم ، قال: علي بن زيد اخبرنا، عن زرارة بن اوفى ، عن مالك بن الحارث رجل منهم، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من ضم يتيما بين ابوين مسلمين إلى طعامه وشرابه حتى يستغني عنه، وجبت له الجنة البتة، ومن اعتق امرا مسلما، كان فكاكه من النار، يجزى بكل عضو منه عضوا منه" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنَا، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ رَجُلٍ مِنْهُمْ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ ضَمَّ يَتِيمًا بَيْنَ أَبَوَيْنِ مُسْلِمَيْنِ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ عَنْهُ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ الْبَتَّةَ، وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ" .
حضرت مالک بن حارث سے مروی ہے کہ رسول اللہ کو انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مستغنی نہیں ہوجاتا خود کمانے لگ جاتا ہے تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے جو شخص کسی مسلمان آدمی کو آزاد کرتا ہے وہ جہنم سے اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور آزاد ہونے والے کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا عبد الله، حدثني ابي سنة ثمان وعشرين ومئتين، حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر بن حبيب الجرمي ، حدثني عمرو بن سلمة ، عن ابيه , انهم وفدوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فلما ارادوا ان ينصرفوا , قالوا: يا رسول الله، من يؤمنا؟ قال: " اكثركم جمعا للقرآن" او" اخذا للقرآن" , قال: فلم يكن احد من القوم جمع من القرآن ما جمعت، قال: فقدموني وانا غلام، فكنت اؤمهم وعلي شملة لي، قال: فما شهدت مجمعا من جرم إلا كنت إمامهم، واصلي على جنائزهم إلى يومي هذا .حدثنا عبد الله، حدثني أبي سَنَةَ ثَمَانٍ وَعِشْرِينَ وَمِئَتَيْنِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْجَرْمِيُّ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سَلِمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُمْ وَفَدُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَنْصَرِفُوا , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ يَؤُمُّنَا؟ قَالَ: " أَكْثَرُكُمْ جَمْعًا لِلْقُرْآنِ" أَوْ" أَخْذًا لِلْقُرْآنِ" , قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ جَمَعَ مِنَ الْقُرْآنِ مَا جَمَعْتُ، قَالَ: فَقَدَّمُونِي وَأَنَا غُلَامٌ، فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ لِي، قَالَ: فَمَا شَهِدْتُ مَجْمَعًا مِنْ جَرْمٍ إِلَّا كُنْتُ إِمَامَهُمْ، وَأُصَلِّي عَلَى جَنَائِزِهِمْ إِلَى يَوْمِي هَذَا .
حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے قبیلے کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جب ان کا واپسی کا ارادہ ہوا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ہماری امامت کون کرائے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جسے قرآن سب سے زیادہ آتا ہو اس وقت کسی کو اتنا قرآن یاد نہ تھا جتنا مجھے یاد تھا چنانچہ انہوں نے مجھے نوعمر ہونے کے باوجود آگے کردیا میں جس وقت ان کی امامت کرتا تھا تو میرے اوپر ایک چادر ہوتی تھی اور اس کے بعد میں قبیلہ جرم کے جس مجمعے میں بھی موجود ہوتا رہا ان کی امامت میں نے ہی کی اور اب تک ان کی نماز جنازہ بھی میں ہی پڑھا رہا ہوں۔