گزشتہ حدیث اس دوسری سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اتنا عرصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل کیا ہے۔
حضرت معقل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا میں اپنی قوم میں فیصلے کیا کروں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اچھی طرح فیصلہ نہیں کرنا جانتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قاضی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جب تک وہ جان بوجھ کر ظلم نہ کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، نفيع بن الحارث متروك متهم
حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا خالد يعني ابن طهمان ابو العلاء الخفاف ، حدثني نافع بن ابي نافع ، عن معقل بن يسار ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال حين يصبح ثلاث مرات: اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم، وقرا الثلاث آيات من آخر سورة الحشر، وكل الله به سبعين الف ملك يصلون عليه حتى يمسي، إن مات في ذلك اليوم مات شهيدا، ومن قالها حين يمسي كان بتلك المنزلة" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ الْخَفَّافُ ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَقَرَأَ الثَّلَاثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى يُمْسِيَ، إِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَهِيدًا، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ" .
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھ کر سورت حشر کی آخری تین آیات پڑھ لے اللہ اس پر ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ اسی دن فوت ہوجائے تو شہادت کی موت مرے گا اور جو شخص شام کو یہ کلمات کہے تو اس کا بھی یہی مرتبہ ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، خالد بن طهمان ضعيف مختلط، ونافع بن أبى نافع إن كان هو نفيع بن الحارث أبا داود فهو متروك ، وإن كان غيره فهو مجهول
حدثنا ابو احمد ، حدثنا خالد يعني ابن طهمان ، عن نافع بن ابي نافع ، عن معقل بن يسار ، قال: وضات النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال: " هل لك في فاطمة رضي الله عنها تعودها؟" فقلت: نعم , فقام متوكئا علي، فقال:" اما إنه سيحمل ثقلها غيرك، ويكون اجرها لك" قال: فكانه لم يكن علي شيء حتى دخلنا على فاطمة عليها السلام , فقال لها:" كيف تجدينك؟" قالت: والله، لقد اشتد حزني، واشتدت فاقتي، وطال سقمي ، قال ابو عبد الرحمن: وجدت في كتاب ابي بخط يده في هذا الحديث قال:" او ما ترضين اني زوجتك اقدم امتي سلما، واكثرهم علما، واعظمهم حلما".حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ فِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَعُودُهَا؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ , فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَيَّ، فَقَالَ:" أَمَا إِنَّهُ سَيَحْمِلُ ثِقَلَهَا غَيْرُكَ، وَيَكُونُ أَجْرُهَا لَكَ" قَالَ: فَكَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيَّ شَيْءٌ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام , فَقَالَ لَهَا:" كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟" قَالَتْ: وَاللَّهِ، لَقَدْ اشْتَدَّ حُزْنِي، وَاشْتَدَّتْ فَاقَتِي، وَطَالَ سَقَمِي ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ:" أَوَ مَا تَرْضَيْنَ أَنِّي زَوَّجْتُكِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَأَكْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَأَعْظَمَهُمْ حِلْمًا".
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا وضو کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم فاطمہ کے یہاں چلو گے کہ ان کی عیادت کرلیں میں نے عرض کی جی بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سہارا لیا اور کھڑے ہوئے اور فرمایا عنقریب اس کا بوجھ تمہارے علاوہ کوئی اور اٹھائے گا اور تمہیں بھی اجر ملے گا راوی کہتے ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھ پر کچھ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ ہم لوگ حضرت فاطمہ کے گھر پہنچ گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے انہوں نے کہا واللہ میرا غم بڑھ گیا ہے اور فاقہ شدید ہوگیا اور بیماری لمبی ہوگئی ہے۔ عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی کتاب میں ان کی لکھائی میں اس حدیث کے بعد یہ اضافہ بھی پایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ میں نے تمہارا نکاح اپنی امت میں سے اس شخص کے ساتھ کیا ہے جو اسلام لانے میں سب سے مقدم، علم میں سب سے زیادہ اور حلم میں سب سے عظیم ہے۔
حدثنا ابو احمد ، حدثنا خالد ، عن نافع ، عن معقل بن يسار ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يلبث الجور بعدي إلا قليلا حتى يطلع، فكلما طلع من الجور شيء ذهب من العدل مثله، حتى يولد في الجور من لا يعرف غيره، ثم ياتي الله تبارك وتعالى بالعدل، فكلما جاء من العدل شيء ذهب من الجور مثله، حتى يولد في العدل من لا يعرف غيره" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَلْبَثُ الْجَوْرُ بَعْدِي إِلَّا قَلِيلًا حَتَّى يَطْلُعَ، فَكُلَّمَا طَلَعَ مِنَ الْجَوْرِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنَ الْعَدْلِ مِثْلُهُ، حَتَّى يُولَدَ فِي الْجَوْرِ مَنْ لَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ، ثُمَّ يَأْتِي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِالْعَدْلِ، فَكُلَّمَا جَاءَ مِنَ الْعَدْلِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنَ الْجَوْرِ مِثْلُهُ، حَتَّى يُولَدَ فِي الْعَدْلِ مَنْ لَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ" .
حضرت معقل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پیچھے تھو ڑے ہی عرصہ کے بعد ظلم نمودار ہونا شروع ہوجائے جتنا ظلم نمودار ہوتا جائے گا اتنا ہی عدل جاتا رہے گا حتی کہ ظلم میں جو بچہ بھی پیدا ہوگا اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا ہوگا پھر اللہ دوبارہ عدل کو لائے گا جتنا عدل آتاجائے گا اتنا ہی ظلم جاتا رہے گا حتی کہ عدل میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا ہوگا۔
حدثنا عمرو بن الهيثم ابو قطن ، حدثنا يونس يعني ابن ابي إسحاق ، عن ابيه ، عن عمرو بن ميمون شهد عمر رضي الله عنه، قال: وقد كان جمع اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في حياته وصحته فناشدهم الله:" من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر في الجد شيئا؟ فقام معقل بن يسار رضي الله عنه , فقال: قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بفريضة فيها جد، فاعطاه ثلثا او سدسا , قال: وما الفريضة؟ قال: لا ادري , قال: ما منعك ان تدري؟!" .حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ شَهِدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ وَصِحَّتِهِ فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ:" مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فِي الْجَدِّ شَيْئًا؟ فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِفَرِيضَةٍ فِيهَا جَدٌّ، فَأَعْطَاهُ ثُلُثًا أَوْ سُدُسًا , قَالَ: وَمَا الْفَرِيضَةُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي , قَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَدْرِيَ؟!" .
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر تھے انہوں نے اپنی زندگی اور صحت میں صحابہ کو جمع کرلیا اور انہیں قسم دے کر پوچھا کہ دادا کی وراثت کے متعلق کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو؟ اس پر حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وراثت کا ایک مسئلہ لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تہائی یا چھٹا حصہ دیا تھا حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ مسئلہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے فرمایا اسے یاد رکھنے سے تمہیں کس نے روکا تھا؟
حدثنا عبد الاعلى ، عن يونس ، عن الحسن ان عمر بن الخطاب , سال عن فريضة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجد، فقام معقل بن يسار المزني ، فقال: " قضى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: ماذا؟ قال: السدس , قال: مع من؟ قال: لا ادري , قال: لا دريت، فما تغني إذا؟! .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ , سَأَلَ عَنْ فَرِيضَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَدِّ، فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ الْمُزَنِيُّ ، فَقَالَ: " قَضَى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: مَاذَا؟ قَالَ: السُّدُسَ , قَالَ: مَعَ مَنْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي , قَالَ: لَا دَرَيْتَ، فَمَا تُغْنِي إِذًا؟! .
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر تھے انہوں نے اپنی زندگی اور صحت میں صحابہ کو جمع کرلیا اور انہیں قسم دے کر پوچھا کہ دادا کی وراثت کے متعلق کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو؟ اس پر حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وراثت کا ایک مسئلہ لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تہائی یا چھٹاحصہ دیا تھا حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ مسئلہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے فرمایا اسے یاد رکھنے سے تمہیں کس نے روکا تھا؟
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، الحسن لم يسمع من عمر