حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مری ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ فلاں آدمی تو ہمیشہ دن کو روزے کا ناغہ کرتا ہی نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ناغہ کیا اور نہ روزہ رکھا۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن عمران بن حصين , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الظهر، فلما سلم قال:" ايكم قرا: ب سبح اسم ربك الاعلى؟" فقال رجل من القوم: انا، فقال: " قد علمت ان بعضكم خالجنيها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ:" أَيُّكُمْ قَرَأَ: بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے سبح اسم ربک الاعلی والی سورت پڑھی، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے سبح اسم ربک الاعلی کس نے پڑھی ہے؟ ایک آدمی نے کہا میں نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھ گیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خروج دجال کے متعلق سنے، وہ اس سے دور ہی رہے (یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا) کیونکہ انسان اس کے پاس جائے گا تو یہ سمجھے گا کہ وہ مسلمان ہے لیکن جوں جوں دجال کے ساتھ شبہ میں ڈالنے والی چیزیں دیکھتا جائے گا، اس کی پیروی کرتا جائے گا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن جامع بن شداد ، عن صفوان بن محرز ، عن عمران بن حصين ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقبلوا البشرى يا بني تميم" قال: قالوا: قد بشرتنا فاعطنا , قال:" اقبلوا البشرى يا اهل اليمن" قال: قلنا: قد قبلنا، فاخبرنا عن اول هذا الامر كيف كان؟ قال:" كان الله تبارك وتعالى قبل كل شيء، وكان عرشه على الماء، وكتب في اللوح ذكر كل شيء" قال: واتاني آت , فقال: يا عمران , انحلت ناقتك من عقالها , قال: فخرجت فإذا السراب ينقطع بيني وبينها، قال: فخرجت في اثرها، فلا ادري ما كان بعدي .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ" قَالَ: قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا , قَالَ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ" قَالَ: قُلْنَا: قَدْ قَبِلْنَا، فَأَخْبِرْنَا عَنْ أَوَّلِ هَذَا الْأَمْرِ كَيْفَ كَانَ؟ قَالَ:" كَانَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِي اللَّوْحِ ذِكْرَ كُلِّ شَيْءٍ" قَالَ: وَأَتَانِي آتٍ , فَقَالَ: يَا عِمْرَانُ , انْحَلَّتْ نَاقَتُكَ مِنْ عِقَالِهَا , قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا السَّرَابُ يَنْقَطِعُ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِي أَثَرِهَا، فَلَا أَدْرِي مَا كَانَ بَعْدِي .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں خوشخبری تو دے دی، اب کچھ عطاء بھی کر دیجئے، تھوڑی دیر بعد یمن کا ایک قبیلہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے تو خوشخبری قبول نہیں کی، تم قبول کرلو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے اسے قبول کرلیا، اب ہمیں بتائیے کہ اس معاملے کا آغاز کس طرح ہوا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہر چیز سے پہلے تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی ہے، حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا اے عمران! تمہاری اونٹنی کی رسی کھل گئی ہے، میں اس کی تلاش میں نکل پڑا، تو میرے اور اس کے درمیان سراب حائل ہوچکا تھا، اب مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا يونس ، قال: نبئت ان المسور جاء إلى الحسن ، فقال: إن غلاما لي ابق، فنذرت إن انا عاينته ان اقطع يده، فقد جاء فهو الآن بالجسر , قال: فقال الحسن: لا تقطع يده , وحدثه ان رجلا قال لعمران بن حصن : إن عبدا لي ابق , وإني نذرت إن انا عاينته ان اقطع يده , قال: فلا تقطع يده، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤم فينا او قال: يقوم فينا " فيامرنا بالصدقة، وينهانا عن المثلة" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، قَالَ: نُبِّئْتُ أَنَّ الْمِسْوَرَ جَاءَ إِلَى الْحَسَنِ ، فَقَالَ: إِنَّ غُلَامًا لِي أَبَقَ، فَنَذَرْتُ إِنْ أَنَا عَايَنْتُهُ أَنْ أَقْطَعَ يَدَهُ، فَقَدْ جَاءَ فَهُوَ الْآنَ بِالْجِسْرِ , قَالَ: فَقَالَ الْحَسَنُ: لَا تَقْطَعْ يَدَهُ , وَحَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَنٍ : إِنَّ عَبْدًا لِي أَبَقَ , وَإِنِّي نَذَرْتُ إِنْ أَنَا عَايَنْتُهُ أَنْ أَقْطَعَ يَدَهُ , قَالَ: فَلَا تَقْطَعْ يَدَهُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَؤُمُّ فِينَا أَوْ قَالَ: يَقُومُ فِينَا " فَيَأْمُرُنَا بِالصَّدَقَةِ، وَيَنْهَانَا عَنِ الْمُثْلَةِ" .
ایک مرتبہ مسور، حسن کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرا ایک غلام بھاگ گیا تھا، میں نے یہ منت مان لی کہ اگر وہ مجھے نظر آگیا تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا، اب وہ " جسر " میں ہے، حسن نے کہا کہ اس کا ہاتھ مت کاٹو، کیونکہ ایک آدمی نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی یہی کہا تھا کہ میرا غلام بھاگ گیا ہے، میں نے یہ منت مانی ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا، انہوں نے فرمایا اس کا ہاتھ مت کاٹو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے خطاب میں صدقہ کی ترغیب دیتے اور مثلہ کرنے سے منع فرماتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، والمرفوع منه صحيح، وهذا إسناد منقطع، يونس لم يسمعه من الحسن البصري، لكنه توبع ، والحسن لم يسمعه من عمران
حدثنا إسماعيل ، عن علي بن زيد ، عن ابي نضرة ، عن عمران بن حصين , قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الفتح، فاقام بمكة ثمان عشرة ليلة لا يصلي إلا ركعتين ثم يقول لاهل البلد: " صلوا اربعا فإنا سفر" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِ عَشْرَةَ لَيْلَةً لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ لِأَهْلِ الْبَلَدِ: " صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا سَفْرٌ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں فتح کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھارہ دن تک رہے، میں بھی ان کے ساتھ تھا لیکن لوگوں کو دو دو رکعتیں ہی پڑھاتے رہے اور اہل شہر سے فرما دیتے کہ تم اپنی نماز مکمل کرلو کیونکہ ہم مسافر ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: صلوا أربعا فإنا سفر ، وهذا إسناد ضعيف من أجل على بن زيد
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین میں سے ایک آدمی " جس کا تعلق بنو عقیل سے تھا " کے فدئیے میں دو مسلمان واپس لے لئے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے زیاد نے حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کو خراسان کا گورنر مقرر کردیا، حضرت عمران رضی اللہ عنہ کو ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ ان سے گھر کے دروازے پر ملے اور کہا کہ مجھے آپ سے ملنے کی خواہش تھی، کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے؟ حکم رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! اس پر حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا۔
حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا خالد ، عن رجل ، عن مطرف بن الشخير ، عن عمران بن حصين ، قال: " صليت خلف علي بن ابي طالب رضي الله عنه صلاة ذكرني صلاة صليتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم والخليفتين، قال: فانطلقت فصليت معه، فإذا هو يكبر كلما سجد وكلما رفع راسه من الركوع، فقلت: يا ابا نجيد، من اول من تركه؟ قال عثمان بن عفان رضي الله عنه حين كبر وضعف صوته تركه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَاةً ذَكَّرَنِي صَلَاةً صَلَّيْتُهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْخَلِيفَتَيْنِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، فَإِذَا هُوَ يُكَبِّرُ كُلَّمَا سَجَدَ وَكُلَّمَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الركوعِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا نُجَيْدٍ، مَنْ أَوَّلُ مَنْ تَرَكَهُ؟ قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَبِرَ وَضَعُفَ صَوْتُهُ تَرَكَهُ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ ایسی نماز تھی جسے پڑھ کر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کی نماز یاد آگئی، راوی کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ چلا گیا اور ان کے ہمراہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ سجدے میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت ہر مرتبہ اللہ اکبر کہتے رہے، جب نماز سے فراغت ہوئی تو میں نے حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے ابونجید! سب سے پہلے اس کس نے ترک کیا؟ انہوں نے کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے، جبکہ وہ بوڑھے ہوگئے اور ان کی آواز کمزور ہوگئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، فيه الرجل المبهم، وهو غيلان بن جرير
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے پوچھا کیا تم نے شعبان کے اس مہینے کے آخر میں کوئی روزہ رکھا ہے؟ اس نے کہا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کے روزے ختم ہوجائیں تو ایک دو دن کے روزے رکھ لینا۔