حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن جامع بن شداد ، عن صفوان بن محرز ، عن عمران بن حصين ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقبلوا البشرى يا بني تميم" قال: قالوا: قد بشرتنا فاعطنا , قال:" اقبلوا البشرى يا اهل اليمن" قال: قلنا: قد قبلنا، فاخبرنا عن اول هذا الامر كيف كان؟ قال:" كان الله تبارك وتعالى قبل كل شيء، وكان عرشه على الماء، وكتب في اللوح ذكر كل شيء" قال: واتاني آت , فقال: يا عمران , انحلت ناقتك من عقالها , قال: فخرجت فإذا السراب ينقطع بيني وبينها، قال: فخرجت في اثرها، فلا ادري ما كان بعدي .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ" قَالَ: قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا , قَالَ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ" قَالَ: قُلْنَا: قَدْ قَبِلْنَا، فَأَخْبِرْنَا عَنْ أَوَّلِ هَذَا الْأَمْرِ كَيْفَ كَانَ؟ قَالَ:" كَانَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِي اللَّوْحِ ذِكْرَ كُلِّ شَيْءٍ" قَالَ: وَأَتَانِي آتٍ , فَقَالَ: يَا عِمْرَانُ , انْحَلَّتْ نَاقَتُكَ مِنْ عِقَالِهَا , قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا السَّرَابُ يَنْقَطِعُ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِي أَثَرِهَا، فَلَا أَدْرِي مَا كَانَ بَعْدِي .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں خوشخبری تو دے دی، اب کچھ عطاء بھی کر دیجئے، تھوڑی دیر بعد یمن کا ایک قبیلہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے تو خوشخبری قبول نہیں کی، تم قبول کرلو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے اسے قبول کرلیا، اب ہمیں بتائیے کہ اس معاملے کا آغاز کس طرح ہوا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہر چیز سے پہلے تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی ہے، حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا اے عمران! تمہاری اونٹنی کی رسی کھل گئی ہے، میں اس کی تلاش میں نکل پڑا، تو میرے اور اس کے درمیان سراب حائل ہوچکا تھا، اب مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔