حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج . وابن بكر ، قال: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني حسن بن مسلم ، عن طاوس ، قال: قدم زيد بن ارقم ، فكان ابن عباس يستذكره، كيف اخبرتني عن لحم، قال ابن بكر: اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم حراما، وقال عبد الرزاق: اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم، اهدي له عضو، قال ابن بكر: اهدى رجل عضوا من لحم صيد، فرده عليه، وقال: " إنا لا ناكله، إنا حرم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ، كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمٍ، قَالَ ابْنُ بَكْرٍ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَامًا، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، أُهْدِيَ لَهُ عُضْوٌ، قَالَ ابْنُ بَكْرٍ: أَهْدَى رِجْلُ عُضْوًا مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ، إِنَّا حُرُمٌ" .
طاؤس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کریدتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے مجھے وہ بات کیسے بتائی تھی کہ حالت احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا گیا؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک آدمی نے کسی شکار کا ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیۃ ًپیش کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا ہم اسے نہیں کھاسکتے کیونکہ ہم محرم ہیں۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن اجلح ، عن الشعبي ، عن عبد الله بن ابي الخليل ، عن زيد بن ارقم : ان نفرا وطئوا امراة في طهر، فقال علي رضي الله تعالى عنه لاثنين: اتطيبان نفسا لذا؟ فقالا: لا، فاقبل على الآخرين، فقال: اتطيبان نفسا لذا؟ فقالا: لا، قال: انتم شركاء متشاكسون، قال: إني مقرع بينكم، فايكم قرع اغرمته ثلثي الدية، والزمته الولد، قال: فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا اعلم إلا ما قال علي" رضي الله عنه .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَجْلَحَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ : أَنَّ نَفَرًا وَطِئُوا امْرَأَةً فِي طُهْرٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ لِاثْنَيْنِ: أَتَطِيبَانِ نَفْسًا لِذَا؟ فَقَالَا: لَا، فَأَقْبَلَ عَلَى الْآخَرَيْنِ، فَقَالَ: أَتَطِيبَانِ نَفْسًا لِذَا؟ فَقَالَا: لَا، قَالَ: أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، قَالَ: إِنِّي مُقْرِعٌ بَيْنَكُمْ، فَأَيُّكُمْ قُرِعَ أَغْرَمْتُهُ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، وَأَلْزَمْتُهُ الْوَلَدَ، قَالَ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا أَعْلَمُ إِلَّا مَا قَالَ عَلِيٌّ" رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان میں سے دو آدمیوں سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے لئے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار نہیں کیا اسی طرح ایک ایک کے ساتھ دوسرے کو ملاکرسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اس مرحلے سے فارغ ہوگئے اور کسی نے بھی بچے کا اقرار نہیں کیا پھر انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اس کا حل وہی جانتاہوں جو علی نے بتایا ہے۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي بكر بن انس ، قال: كتب زيد بن ارقم ، إلى انس بن مالك يعزيه بمن اصيب من ولده وقومه يوم الحرة، فكتب إليه: وابشرك ببشرى من الله عز وجل، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم اغفر للانصار، ولابناء الانصار، ولابناء ابناء الانصار، ولنساء الانصار، ولنساء ابناء الانصار، ولنساء ابناء ابناء الانصار" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ: كَتَبَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيهِ بِمَنْ أُصِيبَ مِنْ وَلَدِهِ وَقَوْمِهِ يَوْمَ الْحَرَّةِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ: وَأُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ" .
نضربن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ واقعہ حرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے جو بچے اور قوم کے لوگ شہید ہوگئے تھے ان کی تعزیت کرنے کے لئے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتاہوں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! انصار کی، ان کی بیٹوں کی اور ان کی پوتوں کی مغفرت فرما اور انصار کی عورتوں کی ان کے بیٹوں کی عورتوں کی اور ان کے پوتوں کی عورتوں کی مغفرت فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4906، م: 2506، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا هشيم ، اخبرنا الاجلح ، عن الشعبي ، عن ابي الخليل ، عن زيد بن ارقم : ان عليا رضي الله عنه اتي في ثلاثة نفر إذ كان باليمن اشتركوا في ولد، فاقرع بينهم، فضمن الذي اصابته القرعة ثلثي الدية، وجعل الولد له، قال زيد بن ارقم: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بقضاء علي، فضحك حتى بدت نواجذه .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ : أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ فِي ثَلَاثَةِ نَفَرٍ إِذْ كَانَ بِالْيَمَنِ اشْتَرَكُوا فِي وَلَدٍ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَضَمِنَ الَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، وَجَعَلَ الْوَلَدَ لَهُ، قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِقَضَاءِ عَلِيٍّ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
حدثنا محمد بن ربيعة ، عن خالد ابي العلاء الخفاف ، عن عطية ، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف انعم وصاحب القرن قد التقم القرن، وحنى جبهته، واصغى السمع متى يؤمر، قال: فسمع ذلك اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فشق عليهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا: حسبنا الله ونعم الوكيل" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْعَلَاءِ الْخَفَّافِ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدْ الْتَقَمَ الْقَرْنَ، وَحَنَى جَبْهَتَهُ، وَأَصْغَى السَّمْعَ مَتَى يُؤْمَرُ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ" ..
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں کس طرح نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہوں جبکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے اپنے منہ صور سے لگا رکھا ہے پیشانی جھکا رکھی ہے اور کان متوجہ کر رکھے ہیں کہ کب اسے حکم ہوتا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ بات سن کر بہت سخت معلوم ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہتے رہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے کہ
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية وخالد الخفاف، وقد اختلف فيه
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية العوفي، وهذا الحديث من مسند أبى سعيد الخدري، وقد سلف ، وإنما أعادها الإمام أحمد هنا لذكر الاختلاف فيه على عطية العوفي
حدثنا عبد الوهاب ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن القاسم الشيباني ، عن زيد بن ارقم ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم اتى على مسجد قباء او: دخل مسجد قباء بعدما اشرقت الشمس، فإذا هم يصلون، فقال: " إن صلاة الاوابين كانوا يصلونها إذا رمضت الفصال" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى مَسْجِدِ قُبَاءَ أَوْ: دَخَلَ مَسْجِدَ قُبَاءَ بَعْدَمَا أَشْرَقَتِ الشَّمْسُ، فَإِذَا هُمْ يُصَلُّونَ، فَقَالَ: " إِنَّ صَلَاةَ الْأَوَّابِينَ كَانُوا يُصَلُّونَهَا إِذَا رَمِضَتِ الْفِصَالُ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
حدثنا حجاج ، عن يونس بن ابي إسحاق ، وإسماعيل بن عمر ، قال: حدثنا يونس بن ابي إسحاق ، عن ابي إسحاق ، عن زيد بن ارقم ، قال: اصابني رمد، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فلما برات خرجت، قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ارايت لو كانت عيناك لما بهما ما كنت صانعا؟ قال: قلت: لو كانتا عيناي لما بهما، صبرت واحتسبت، قال: لو كانت عيناك لما بهما، ثم صبرت واحتسبت، للقيت الله عز وجل ولا ذنب لك، قال إسماعيل: ثم صبرت واحتسبت، لاوجب الله لك الجنة" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَصَابَنِي رَمَدٌ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا بَرَأْتُ خَرَجْتُ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ عَيْنَاكَ لِمَا بِهِمَا مَا كُنْتَ صَانِعًا؟ قَالَ: قُلْتُ: لَوْ كَانَتَا عَيْنَايَ لِمَا بِهِمَا، صَبَرْتُ وَاحْتَسَبْتُ، قَالَ: لَوْ كَانَتْ عَيْنَاكَ لِمَا بِهِمَا، ثُمَّ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ، لَلَقِيتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا ذَنْبَ لَكَ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: ثُمَّ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ، لَأَوْجَبَ اللَّهُ لَكَ الْجَنَّةَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجھے آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تھے جب میں صحیح ہوگیا تو گھر سے نکلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری آنکھیں اسی بیماری میں رہتیں تو تم کیا کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ اگر میری آنکھیں اسی طرح رہتیں تو میں ثواب کی نیت سے صبر کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم اللہ سے اس طرح ملتے کہ تمہارا کوئی گناہ نہ ہوتا۔
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مؤمن کی مثال جسم کی سی ہے کہ اگر انسان کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6011، م: 2586، معاوية بن عبدالله متابع
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر فرمایا جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتاوہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاوہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا اللہ کے انعامات و احسانات کو بیان کرنا شکر ہے چھوڑنا کفر ہے، اجتماعیت رحمت ہے پھر وتراق عذاب ہے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناد ضعيف، فيه أبو عبدالرحمن لا يعرف، وقوله: ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله صحيح لغيره