حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا العطاف ، حدثني مجمع بن يعقوب ، عن غلام من اهل قباء، انه ادركه شيخا، قال:" جاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقباء، فجلس في فناء الاجم، واجتمع إليه ناس، فاستسقى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقي، فشرب وانا عن يمينه، وانا احدث القوم، فناولني، فشربت، وحفظت انه صلى بنا يومئذ وعليه نعلاه لم ينزعهما" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ ، حَدَّثَنِي مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ ، عَنْ غُلَامٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، أَنَّهُ أَدْرَكَهُ شَيْخًا، قَالَ:" جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبَاءَ، فَجَلَسَ فِي فِنَاءِ الَأُجُمِ، وَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، فَاسْتَسْقَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقِيَ، فَشَرِبَ وَأَنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَأَنَا أَحْدَثُ الْقَوْمِ، فَنَاوَلَنِي، فَشَرِبْتُ، وَحَفِظْتُ أَنَّهُ صَلَّى بِنَا يَوْمَئِذٍ وَعَلَيْهِ نَعْلَاَهِ لَمْ يَنْزِعْهُمَا" .
اہل قباء کے غلام صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس قباء میں تشریف لائے اور کنگروں کے بغیر صحن میں بیٹھ گئے لوگ بھی جمع ہونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر نوش فرمایا میں اس وقت سب سے چھوٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب تھا لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پس خوردہ مجھے عطاء فرمادیا جسے میں نے پی لیا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نے دن ہمیں جو نماز پڑھائی تھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے پہن رکھے تھے انہیں اتار انہیں تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مجمع إنما رواه عن محمد ابن إسماعيل بن مجمع، عن بعض أهله، عن الصحابي من أهل قباء وروايته عنه مبهم
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور بنو عبدالاشہل کی مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اپنے ہاتھ کپڑے (چادر) کے اندر کرلیے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وقد وهم فيه الدراوردي، وفيه مجاهيل
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن بكير بن عطاء الليثي ، قال: سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، يقول: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بعرفة، فاتاه ناس من اهل نجد، فقالوا: يا رسول، كيف الحج؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الحج عرفة، من جاء قبل صلاة الفجر من ليلة جمع تم حجه، ايام منى ثلاثة ايام، فمن تعجل في يومين، فلا إثم عليه ومن تاخر، فلا إثم عليه" ثم اردف خلفه رجلا، فجعل ينادي بهن .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ الدِّيلِيَّ ، يَقُولُ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ، كَيْفَ الْحَجُّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَجُّ عَرَفَةَ، مَنْ جَاءَ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ مِنْ لَيْلَةِ جَمْعٍ تَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةٌ أيام، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ" ثُمَّ أَرْدَفَ خَلْفَهُ رَجُلًا، فَجَعَلَ يُنَادِي بِهِنَّ .
حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ کچھ اہل نجد نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے متعلق پوچھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حج تو ہوتا ہی عرفہ کے دن ہے جو شخص مزدلفہ کی رات نماز فجر ہونے سے پہلے بھی میدان عرفات کو پالے تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور منیٰ کے تین دن ہیں سو جو شخص پہلے ہی دو دن میں واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو بعد میں آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے پیچھے بٹھالیا جو ان باتوں کی منادی کرنے لگا۔
حضرت بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران حج ایام تشریق میں یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ جنت میں سوائے کسی مسلمان کے کوئی دوسرا شخص داخل نہ ہوگا اور آج کل کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ حضرت بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران حج ایام تشریق میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔ آج کل کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔
حضرت بشر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا، اس کا امیر کیا خوب ہوگا اور وہ لشکر کیسا بہترین ہوگا، راوی کہتے ہیں کہ مجھے مسلمہ بن عبدالملک نے بلایا اور اس نے مجھ سے یہ حدیث پوچھی، میں نے بیان کردی تو وہ قسنطنیہ کے جہاد میں شریک ہوا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله بن بشر، وقد اختلف على زيد بن الحباب فى اسمه واسم أبيه ونسبه
حدثنا عبد الله بن محمد ، قال عبد الله بن احمد: وسمعته انا من عبد الله بن محمد بن ابي شيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري ، عن عبد الله بن عبد الرحمن الطائفي ، عن عبد الرحمن بن خالد العدواني ، عن ابيه ، انه ابصر رسول الله صلى الله عليه وسلم في مشرق ثقيف، وهو قائم على قوس او عصا حين اتاهم يبتغي عندهم النصر، قال: فسمعته يقرا: والسماء والطارق حتى ختمها قال: فوعيتها في الجاهلية وانا مشرك، ثم قراتها في الإسلام، قال: فدعتني ثقيف، فقالوا: ماذا سمعت من هذا الرجل؟ فقراتها عليهم، فقال من معهم من قريش: نحن اعلم بصاحبنا، لو كنا نعلم ما يقول حقا لاتبعناه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بن أحمد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ الْعَدْوَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ أَبْصَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرِقِ ثَقِيفٍ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى قَوْسٍ أَوْ عَصًا حِينَ أَتَاهُمْ يَبْتَغِي عِنْدَهُمْ النَّصْرَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ حَتَّى خَتَمَهَا قَالَ: فَوَعَيْتُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَأَنَا مُشْرِكٌ، ثُمَّ قَرَأْتُهَا فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَدَعَتْنِي ثَقِيفٌ، فَقَالُوا: مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ؟ فَقَرَأْتُهَا عَلَيْهِمْ، فَقَالَ مَنْ مَعَهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ: نَحْنُ أَعْلَمُ بِصَاحِبِنَا، لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ مَا يَقُولُ حَقًّا لاَتََّبِعْنَاهُ" .
حضرت خالد عدوانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قبیلہ ثقیف کے پاس مدد حاصل کرنے کے لئے آئے تھے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرقی ثقیف میں دیکھا تھا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کمان یا لاٹھی سے ٹیک لگائے کھڑے تھے، میں نے انہیں مکمل سورت والسماء والطارق پڑھتے ہوئے سنا، میں اس وقت مشرک تھا لیکن پھر بھی میں نے اسے زبانی یاد کرلیا، پھر مسلمان ہونے کے بعد بھی اسے پڑھا، قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے مجھے بلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو کیا پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے انہیں وہ سورت پڑھ کر سنادی، تو ان کے ہمراہی میں موجود قریش کے لوگ کہنے لگے ہم اپنے اس ساتھی کو خوب جانتے ہیں، اگر ہمیں یقین ہوتا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں، برحق ہے تو ہم ان کی پیروی ضرور کرتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن خالد. عبدالله بن عبدالرحمن الطائفي ضعيف يعتبر فى الشواهد والمتابعات، ولم يتابعه أحد هنا
حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن سليمان بن عبد الرحمن ، عن نافع بن كيسان ، ان اباه اخبره، انه كان يتجر بالخمر في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، وانه اقبل من الشام ومعه خمر في الزقاق يريد بها التجارة، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني جئتك بشراب جيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا كيسان إنها قد حرمت بعدك" قال: افابيعها يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها قد حرمت وحرم ثمنها" . فانطلق كيسان إلى الزقاق، فاخذ بارجلها، ثم اهرقها.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ كَيْسَانَ ، أَنَّ أَبَاهُ أخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَتَّجِرُ بِالْخَمْرِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ أَقْبَلَ مِنَ الشَّامِ وَمَعَهُ خَمْرٌ فِي الزِّقَاقِ يُرِيدُ بِهَا التِّجَارَةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُكَ بِشَرَابٍ جَيِّدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا كَيْسَانُ إِنَّهَا قَدْ حُرِّمَتْ بَعْدَكَ" قَالَ: أَفَأَبِيعُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا قَدْ حُرِّمَتْ وَحُرِّمَ ثَمَنُهَا" . فَانْطَلَقَ كَيْسَانُ إِلَى الزِّقَاقِ، فَأَخَذَ بِأَرْجُلِهَا، ثُمَّ أَهْرَقَهَا.
حضرت کیسان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ نبی کے دور میں شراب کی تجارت کرتے تھے، ایک مرتبہ وہ شام سے واپس آئے تو ان کے ساتھ شراب کے بہت سے مٹکے تھے جو تجارت کے ارادے سے وہ لائے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس بڑی عمدہ شراب لے کر آیا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسان! وہ تو تمہارے پیچھے حرام ہوگئی،، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے بیچ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شراب بھی حرام ہوچکی اور اس کی قیمت بھی، چناچہ حضرت کیسان واپس آئے اور پاؤں سے ٹھوکریں مار مار کر ان مٹکوں کو توڑ ڈالا اور شراب بہادی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة نافع بن كيسان مختلف فى صحبته
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، عن زهرة بن معبد ، عن جده ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: والله يا رسول الله، لانت احب إلي من كل شيء إلا نفسي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من نفسه" قال عمر: فانت الآن والله احب إلي من نفسي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الآن يا عمر" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ" قَالَ عمر: فَأَنْتَ الْآنَ وَاللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْآنَ يَا عُمَرُ" .
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کے ساتھ تھے، نبی نے حضرت عمر فاروق کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، نبی نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بخدا! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! اب بات بنی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3694، ابن لهيعة سيئ الحفظ لكنه توبع