حدثنا سليمان بن حرب ، قال: حدثنا عمر بن علي بن مقدم ، قال: حدثنا ابو عميس ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: اتاني ناس من الاشعريين، فقالوا: اذهب معنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لنا حاجة، قال: فقمت معهم، فقالوا: يا رسول الله، استعن بنا في عملك، فاعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مما قالوا، وقلت: لم ادر ما حاجتهم، فصدقني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعذرني، وقال: " إنا لا نستعين في عملنا من سالناه" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قال: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: أَتَانِي نَاسٌ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، فَقَالُوا: اذْهَبْ مَعَنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ لَنَا حَاجَةً، قَالَ: فَقُمْتُ مَعَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَعِنْ بِنَا فِي عَمَلِكَ، فَاعْتَذَرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَالُوا، وَقُلْتُ: لَمْ أَدْرِ مَا حَاجَتُهُمْ، فَصَدَّقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَذَرَنِي، وَقَالَ: " إِنَّا لَا نَسْتَعِينُ فِي عَمَلِنَا مَنْ سَأَلَنَاهُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس کچھ اشعری لوگ آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ہمیں ان سے کوئی کام ہے میں ان کے ساتھ چلا گیا، وہاں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہدہ مانگا میں نے ان کی بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کی اور عرض کیا کہ مجھے ان کی اس ضرورت کے بارے کچھ پتہ نہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق فرمائی اور میرا عذر قبول کرلیا اور فرمایا ہم کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا موسى، ومعاذ بن جبل، إلى اليمن، فقال لهما:" يسرا ولا تعسرا، وبشرا ولا تنفرا، وتطاوعا"، قال ابو موسى: يا رسول الله، إنا بارض يصنع فيها شراب من العسل، يقال له: البتع، وشراب من الشعير، يقال له: المزر؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل مسكر حرام" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا مُوسَى، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُمَا:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا"، قَالَ أَبُو مُوسَى: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ يُصْنَعُ فِيهَا شَرَابٌ مِنَ الْعَسَلِ، يُقَالُ لَهُ: الْبِتْعُ، وَشَرَابٌ مِنَ الشَّعِيرِ، يُقَالُ لَهُ: الْمِزْرُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں، مثلاً جو کی نبیذ ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور شہد کی نبیذ ہے جسے " تبع " کہا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن زياد بن علاقة ، قال: حدثني رجل من قومي، قال شعبة: قد كنت احفظ اسمه، قال: كنا على باب عثمان رضي الله عنه، ننتظر الإذن عليه، فسمعت ابا موسى الاشعري ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فناء امتي بالطعن والطاعون"، قال: فقلنا: يا رسول الله، هذا الطعن قد عرفناه، فما الطاعون؟ قال:" طعن اعدائكم من الجن، في كل شهادة" ، قال زياد: فلم ارض بقوله، فسالت سيد الحي، وكان معهم، فقال: صدق، حدثناه ابو موسى..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، قال: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ قَوْمِي، قال شُعْبَةُ: قَدْ كُنْتُ أَحْفَظُ اسْمَهُ، قَالَ: كُنَّا عَلَى بَابِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نَنْتَظِرُ الْإِذْنَ عَلَيْهِ، فَسَمِعْتُ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَاءُ أُمَّتِي بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ"، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّعْنُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الطَّاعُونُ؟ قَالَ:" طَعْنُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ، فِي كُلٍّ شَهَادَةٌ" ، قَالَ زِيَادٌ: فَلَمْ أَرْضَ بِقَوْلِهِ، فَسَأَلْتُ سَيِّدَ الْحَيِّ، وَكَانَ مَعَهُمْ، فَقَالَ: صَدَقَ، حَدَّثَنَاهُ أَبُو مُوسَى..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم طعن کا معنی تو ہم نے سمجھ لیا (کہ نیزوں سے مارنا) طاعون سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناد اختلف فيه على زياد ابن علاقة
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، قال: فهبطنا في وهدة من الارض، قال: فرفع الناس اصواتهم بالتكبير، فقال:" ايها الناس، اربعوا على انفسكم، فإنكم لا تدعون اصم، ولا غائبا، إنكم تدعون سميعا قريبا"، قال: ثم دعاني، وكنت منه قريبا، فقال:" يا عبد الله بن قيس، الا ادلك على كلمة من كنز الجنة؟"، قال: قلت: بلى، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قال: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَالَ: فََهَبَطْنَا فِي وَهْدَةً مِنَ الْأَرْضِ، قَالَ: فَرَفَعَ النَّاسُ أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا"، قَالَ: ثُمَّ دَعَانِي، وَكُنْتُ مِنْهُ قَرِيبًا، فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ؟"، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا " لاحول ولاقوۃ الاباللہ " (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت عطر لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ایسی ہے (بدکا رہے)
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا سليمان يعني التيمي ، عن ابي السليل ، عن زهدم ، عن ابي موسى ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فقال:" لا والله، لا احملكم"، فلما رجعنا، ارسل إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاث ذود بقع الذرى، قال: فقلت: حلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يحملنا، ثم حملنا، فاتيناه، فقلنا: يا رسول الله، إنك حلفت ان لا تحملنا، فحملتنا! فقال: " لم احملكم، ولكن الله حملكم، والله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيته" . قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: ابو السليل: ضريب بن نقير.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قال: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَن أَبِي السَّلِيلِ ، عَن زَهْدَمٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" لَا وَاللَّهِ، لَا أَحْمِلُكُمْ"، فَلَمَّا رَجَعْنَا، أَرْسَلَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ ذَوْدٍ بُقْعِ الذُّرَى، قَالَ: فَقُلْتُ: حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، فَحَمَلْتَنَا! فَقَالَ: " لَمْ أَحْمِلْكُمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُهُ" . قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: أَبُو السَّلِيلِ: ضُرَيْبُ بْنُ نُقَيْرٍ.
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلا دیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: استاذن ابو موسى على عمر رضي الله عنهما ثلاثا، فلم يؤذن له، فرجع، فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال: ما شانك رجعت؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من استاذن ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع"، فقال: لتاتين على هذه ببينة، او: لافعلن ولافعلن، فاتى مجلس قومه، فناشدهم الله تعالى، فقلت: انا معك، فشهدوا له، فخلى سبيله .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونٍَ ، قال: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَن أَبِي نَضْرَةَ ، عَن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَلَقِيَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ رَجَعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ اسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ"، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذِهِ بِبَيِّنَةٍ، أَوْ: لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ، فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ تَعَالَى، فَقُلْتُ: أَنَا مَعَكَ، فَشَهِدُوا لَهُ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی، جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسی کا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔