حدثنا يونس ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن يونس بن عبيد ، عن حميد بن هلال ، قال: جمع بيني، وبين بشر بن عاصم رجل فحدثني، عن عقبة بن مالك ، ان سرية لرسول الله صلى الله عليه وسلم غشوا اهل ماء صبحا، فبرز رجل من اهل الماء، فحمل عليه رجل من المسلمين، فقال: إني مسلم فقتله، فلما قدموا اخبروا النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد، فما بال المسلم يقتل الرجل وهو يقول إني مسلم"، فقال الرجل: إنما قالها متعوذا، فصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وجهه، ومد يده اليمنى، فقال:" ابى الله علي من قتل مسلما" ثلاث مرات .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، قَالَ: جَمَعَ بَيْنِي، وَبَيْنَ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ رَجُلٌ فَحَدَّثَنِي، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ سَرِيَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَشُوا أَهْلَ مَاءٍ صُبْحًا، فَبَرَزَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ، فَحَمَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ فَقَتَلَهُ، فَلَمَّا قَدِمُوا أَخْبَرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ الْمُسْلِمِ يَقْتُلُ الرَّجُلَ وَهُوَ يَقُولُ إِنِّي مُسْلِمٌ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّمَا قَالَهَا مُتَعَوِّذًا، فَصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَهُ، وَمَدَّ يَدَهُ الْيُمْنَى، فَقَالَ:" أَبَى اللَّهُ عَلَيَّ مَنْ قَتَلَ مُسْلِمًا" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .
حضرت عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ایک دستے نے صبح کے وقت ایک علاقے کے لوگوں پر حملہ کیا، وہ لوگ پانی کے قریب رہتے تھے، ان میں سے ایک آدمی باہر نکلا تو ایک مسلمان نے اس پر حملہ کر دیا اور کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہوں لیکن اس کے باوجود اس نے اسے قتل کر دیا، واپسی پر جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق بتایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کی اور اما بعد کہہ کر فرمایا: ”یہ کیا بات ہے کہ ایک مسلمان دوسرے آدمی کو اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود قتل کر دیتا ہے؟“ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ! اس نے یہ کلمہ صرف اپنی جان بچانے کے لئے پڑھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دائیں ہاتھ کو بلند کر کے تین مرتبہ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کو قتل کرنے والے کے حق میں میری بات ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، إن كان بشر بن عاصم هو الذى وثقه النسائي
حدثنا علي بن بحر ، قال: حدثنا محمد بن حمير الحمصي ، قال: حدثنا ثابت بن عجلان ، قال: سمعت ابا كثير المحاربي ، يقول: سمعت خرشة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ستكون من بعدي فتنة، النائم فيها خير من اليقظان، والقاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الساعي، فمن اتت عليه فليمش بسيفه إلى صفاة، فليضربه بها حتى ينكسر، ثم ليضطجع لها حتى تنجلي عما انجلت" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ الْحِمْصِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا كَثِيرٍ الْمُحَارِبِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ خَرَشَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌ، النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْيَقْظَانِ، وَالْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَمَنْ أَتَتْ عَلَيْهِ فَلْيَمْشِ بِسَيْفِهِ إِلَى صَفَاةٍ، فَلْيَضْرِبْهُ بِهَا حَتَّى يَنْكَسِرَ، ثُمَّ لِيَضْطَجِعَ لَهَا حَتَّى تَنْجَلِيَ عَمَّا انْجَلَتْ" .
حضرت خرشہ بن حر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے میرے بعد فتنے رونما ہوں گے، اس زمانے میں سویا ہوا شخص جاگنے والے سے، بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے سے اور کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہو گا، جس پر ایسا زمانہ آئے اسے چاہیے کہ اپنی تلوار صفا پر لے جا کر مارے اور اسے توڑ دے اور ان فتنوں کے سامنے (کھڑا ہونے کی بجائے) بیٹھ جائے یہاں تک کہ اجالا ہو جائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كثير، وهذا مشد المكثرين من الصحابة من منكرات ثابت بن عجلان
حدثنا حميد بن عبد الرحمن الرؤاسي ، حدثنا زهير ، عن داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد الحميري ، قال: لقيت رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم صحبه مثل ما صحبه ابو هريرة، فما زادني على ثلاث كلمات، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يغتسل الرجل من فضل امراته، ولا تغتسل بفضله، ولا يبول في مغتسله، ولا يمتشط في كل يوم" .حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِيُّ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ حُمَيْدٍ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِبَهُ مِثْلَ مَا صَحِبَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَمَا زَادَنِي عَلَى ثَلَاثِ كَلِمَاتٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَغْتَسِلُ الرَّجُلُ مِنْ فَضْلِ امْرَأَتِهِ، وَلَا تَغْتَسِلُ بِفَضْلِهِ، وَلَا يَبُولُ فِي مُغْتَسَلِهِ، وَلَا يَمْتَشِطُ فِي كُلِّ يَوْمٍ" .
حمید حمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے ہوئی جنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح چار سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت پائی تھی، انہوں نے تین باتوں سے زیادہ کوئی بات مجھ سے نہیں کہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرد عورت کے بچائے ہوۓ پانی سے غسل کر سکتا ہے لیکن عورت مرد کے بچائے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے، غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے اور روزانہ کنگھی (بناؤ سنگھار) نہ کرے۔“
حدثنا يونس ، وعفان ، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، قال: لقيت رجلا قد صحب النبي صلى الله عليه وسلم اربع سنين، كما صحبه ابو هريرة اربع سنين، قال:" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يمتشط احدنا كل يوم، وان يبول في مغتسله، وان تغتسل المراة بفضل الرجل، وان يغتسل الرجل بفضل المراة، وليغترفوا جميعا" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ سِنِينَ، كَمَا صَحِبَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ أَرْبَعَ سِنِينَ، قَالَ:" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمْتَشِطَ أَحَدُنَا كُلَّ يَوْمٍ، وَأَنْ يَبُولَ فِي مُغْتَسَلِهِ، وَأَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ بِفَضْلِ الرَّجُلِ، وَأَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ الْمَرْأَةِ، وَلْيَغْتَرِفُوا جَمِيعًا" .
حمید حمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے ہوئی جنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح چار سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت پائی تھی، انہوں نے تین باتوں سے زیادہ کوئی بات مجھ سے نہیں کہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرد عورت کے بچائے ہوۓ پانی سے غسل کر سکتا ہے لیکن عورت مرد کے بچائے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے، غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے اور روزانہ کنگھی (بناؤ سنگھار) نہ کرے۔“
حدثنا محمد هو ابن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن إسحاق هو ابن سويد ، عن ابي حبيبة ، عن ذلك الرجل ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم ولي حاجة، فراى علي خلوقا، فقال: " اذهب فاغسله"، فغسلته، ثم عدت إليه، فقال:" اذهب فاغسله"، فذهبت فوقعت في بئر، فاخذت مستقة فجعلت اتتبعه، ثم عدت إليه، فقال:" حاجتك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْحَاقَ هُوُ ابْنُ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ ، عَنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِي حَاجَةٌ، فَرَأَى عَلَيَّ خَلُوقًا، فَقَالَ: " اذْهَبْ فَاغْسِلْهُ"، فَغَسَلْتُهُ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَاغْسِلْهُ"، فَذَهَبْتُ فَوَقَعْتُ فِي بِئْرٍ، فَأَخَذْتُ مُسْتَقَة فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُهُ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" حَاجَتُكَ" .
مذکورہ صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کسی کام سے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میں نے ”خلوق“ نامی خوشبو لگا رکھی ہے، تو فرمایا کہ جاؤ، اسے دھو کر آؤ، چنانچہ میں سے دھو کر حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: جاؤ، اسے دھو کر آؤ، چنانچہ میں نے اس مرتبہ کنوئیں میں چھلانگ لگا دی اور ایک کنگھے سے اسے کھرچنے لگا، اس مرتبہ جب دوبارہ حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب اپنا کام بتاؤ۔
حدثنا غندر ، قال: حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثني شداد بن عبد الله وكان قد ادرك نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن ابي امامة ، عن عمرو بن عبسة ، قال: قلت: يا رسول الله، علمني مما علمك الله عز وجل، قال: " إذا صليت الصبح، فاقصر عن الصلاة حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت، فلا تصل حتى ترتفع، فإنها تطلع حين تطلع بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، فإذا ارتفعت قيد رمح او رمحين، فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة حتى يعني يستقل الرمح بالظل، ثم اقصر عن الصلاة، فإنها حينئذ تسجر جهنم، فإذا فاء الفيء فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة حتى تصلي العصر، فإذا صليت العصر فاقصر عن الصلاة حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، فحينئذ يسجد لها الكفار" .حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ، فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ، فَلَا تُصَلِّ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ، فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَعْنِي يَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" .
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اللّٰہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوعِ آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، جب سورج طلوع ہو جائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کہ سورج بلند نہ ہو جائے، کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے، یہاں تک کے نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دھکایا جاتا ہے، البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو تم نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو، نمازِ عصر پڑھنے کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔“
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن ابي الفيض ، عن سليم بن عامر ، قال: كان معاوية يسير بارض الروم، وكان بينهم وبينه امد، فاراد ان يدنو منهم، فإذا انقضى الامد غزاهم، فإذا شيخ على دابة يقول: الله اكبر، الله اكبر، وفاء لا غدر، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان بينه وبين قوم عهد، فلا يحلن عقدة ولا يشدها حتى ينقضي امدها، او ينبذ إليهم على سواء"، فبلغ ذلك معاوية فرجع، وإذا الشيخ عمرو بن عبسة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ يَسِيرُ بِأَرْضِ الرُّومِ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ يَدْنُوَ مِنْهُمْ، فَإِذَا انْقَضَى الْأَمَدُ غَزَاهُمْ، فَإِذَا شَيْخٌ عَلَى دَابَّةٍ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَرَجَعَ، وَإِذَا الشَّيْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ .
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوج کو لے کر ارض روم کی طرف چل پڑے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کی کچھ مدت ابھی باقی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ان کے قریب پہنچ کر رک جاتے ہیں، جوں ہی مدت ختم ہو گی، ان سے جنگ شروع کر دیں گے، لیکن دیکھا گیا کہ ایک شیخ سواری پر سوار یہ کہتے جا رہے ہیں ”اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر“ وعدہ پورا کیا جاۓ، عہد شکنی نہ کی جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس شخص کا کسی قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو تو اسے مدت گزرنے سے پہلے یا ان کی طرف سے عہد شکنی سے پہلے اس کی گرہ کھولنی اور بند نہیں کرنی چاہیے“، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ واپس لوٹ گئے اور پتہ چلا کہ وہ شیخ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشاهده، وهذا إسناد منقطع بين سليم بن عامر وبين عمرو بن عبسة
حدثنا ابو اليمان ، قال: حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن يحيى بن ابي عمرو السيباني ، عن ابي سلام الدمشقي ، وعمرو بن عبد الله ، انهما سمعا ابا امامة الباهلي يحدث، عن حديث عمرو بن عبسة السلمي ، قال: رغبت عن آلهة قومي في الجاهلية، فذكر الحديث، قال: فسالت عنه فوجدته مستخفيا بشانه، فتلطفت له حتى دخلت عليه، فسلمت عليه، فقلت له: ما انت؟ فقال:" نبي"، فقلت: وما النبي؟ فقال:" رسول الله"، فقلت: ومن ارسلك؟ قال:" الله عز وجل"، قلت: بماذا ارسلك؟ فقال: " بان توصل الارحام، وتحقن الدماء، وتؤمن السبل، وتكسر الاوثان، ويعبد الله وحده لا يشرك به شيء"، قلت: نعم ما ارسلك به، واشهدك اني قد آمنت بك وصدقتك، افامكث معك ام ما ترى؟ فقال:" قد ترى كراهة الناس لما جئت به، فامكث في اهلك، فإذا سمعتم بي قد خرجت مخرجي فاتني ، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الدِّمَشْقِيِّ ، وَعَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أنهما سمعا أبا أمامة الباهلي يُحَدِّثُ، عَنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: رَغِبْتُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ عَنْهُ فَوَجَدْتُهُ مُسْتَخْفِيًا بِشَأْنِهِ، فَتَلَطَّفْتُ لَهُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ؟ فَقَالَ:" نَبِيٌّ"، فَقُلْتُ: وَمَا النَّبِيُّ؟ فَقَالَ:" رَسُولُ اللَّهِ"، فَقُلْتُ: وَمَنْ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ:" اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"، قُلْتُ: بِمَاذَا أَرْسَلَكَ؟ فَقَالَ: " بِأَنْ تُوصَلَ الْأَرْحَامُ، وَتُحْقَنَ الدِّمَاءُ، وَتُؤَمَّنَ السُّبُلُ، وَتُكَسَّرَ الْأَوْثَانُ، وَيُعْبَدَ اللَّهُ وَحْدَهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ"، قُلْتُ: نِعْمَ مَا أَرْسَلَكَ بِهِ، وَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ آمَنْتُ بِكَ وَصَدَّقْتُكَ، أَفَأَمْكُثُ مَعَكَ أَمْ مَا تَرَى؟ فَقَالَ:" قَدْ تَرَى كَرَاهَةَ النَّاسِ لِمَا جِئْتُ بِهِ، فَامْكُثْ فِي أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِي قَدْ خَرَجْتُ مَخْرَجِي فَأْتِنِي ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرا دل زمانہ جاہلیت کے اپنے قومی معبودوں سے بیزار ہو گیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا، معلوم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں، میں بلطائف الحیل وہاں پہنچا، اور سلام کر کے پوچھا کہ آپ کون ہے؟ فرمایا: نبی! میں نے پوچھا: نبی کون ہوتا ہے؟ فرمایا: اللّٰہ کا قاصد، میں نے پوچھا: آپ کو کس نے بھیجا ہے؟ فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ نے، میں نے پوچھا کہ اس نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ فرمایا: صلہ رحمی کا، جانوں کے تحفظ کا، راستوں میں امن و امان قائم کرنے کا، بتوں کو توڑنے کا اور اللّٰہ کی اس طرح عبادت کرنے کا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے، میں نے عرض کیا کہ آپ کو بہترین چیزوں کا داعی بنا کر بھیجا گیا ہے، اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی تصدیق کرتا ہوں، کیا میں آپ کے ساتھ ہی رہوں یا کیا راۓ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو تم دیکھ رہے ہو کہ لوگ میری تعلیمات پر کتنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں اس لے فی الحال اپنے گھر لوٹ جاؤ اور جب تمہیں میرے نکلنے کی خبر معلوم ہو تو میرے پاس آ جانا۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حدثنا بهز ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا يعلى بن عطاء ، عن يزيد بن طلق ، عن عبد الرحمن بن البيلماني ، عن عمرو بن عبسة ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، من اسلم معك؟، فقال: " حر وعبد"، يعني ابا بكر، وبلالا . فقلت: يا رسول الله، علمني مما تعلم واجهل، هل من الساعات ساعة افضل من الاخرى؟ قال: " جوف الليل الآخر افضل، فإنها مشهودة متقبلة حتى تصلي الفجر، ثم انهه حتى تطلع الشمس ما دامت كالحجفة حتى تنتشر، فإنها تطلع بين قرني شيطان، ويسجد لها الكفار، ثم تصلي، فإنها مشهودة متقبلة حتى يستوي العمود على ظله، ثم انهه، فإنها ساعة تسجر فيها الجحيم، فإذا زالت فصل، فإنها مشهودة متقبلة حتى تصلي العصر، ثم انهه حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، ويسجد لها الكفار" ، وكان عمرو بن عبسة ، يقول: انا ربع الإسلام، وكان عبد الرحمن يصلي بعد العصر ركعتين.حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ؟، فَقَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ"، يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، وَبِلَالًا . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا تَعْلَمُ وَأَجْهَلُ، هَلْ مِنَ السَّاعَاتِ سَاعَةٌ أَفْضَلُ مِنَ الْأُخْرَى؟ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ أَفْضَلُ، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْفَجْرَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مَا دَامَتْ كَالْحَجَفَةِ حَتَّى تَنْتَشِرَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ تُصَلِّي، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يَسْتَوِيَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْهَهُ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ تُسْجَرُ فِيهَا الْجَحِيمُ، فَإِذَا زَالَتْ فَصَلِّ، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" ، وَكَانَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ ، يَقُولُ: أَنَا رُبُعُ الْإِسْلَامِ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ.
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! آپ پر کون لوگ اسلام لائے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آزاد بھی اور غلام بھی“(حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما) میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اللّٰہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجئے؟ کیا کوئی وقت زیادہ افضل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا آخری پہر سب سے زیادہ افضل ہے، اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور نماز قبول ہوتی ہے، جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوع آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رُک جاؤ، جب سورج طلوع ہو جائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کے سورج بلند نہ ہو جائے، کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے، یہاں تک کے نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رُک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دہکایا جاتا ہے، البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کے تم عصر کی نماز پڑھ لو، نماز عصر پڑھنے کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رُک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں“ اور حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے تھے کہ میں چوتھائی اسلام ہوں، اور عبدالرحمٰن بن بیلمانی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، وهذا إسناد مضطرب، يزيد بن طلق مجهول، وعبدالرحمن بن البيلماني ضعيف