صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
زکوٰۃ کے احکام و مسائل
زکوٰۃ ادا نہ کرنے میں سخت وعید کے ابواب کا مجموعہ
1556. ‏(‏1‏)‏ بَابُ الْبَيَانِ أَنَّ إِيتَاءَ الزَّكَاةِ مِنَ الْإِسْلَامِ بِحُكْمِ الْأَمِينَيْنِ‏:‏ أَمِينِ السَّمَاءِ جِبْرِيلَ، وَأَمِينِ الْأَرْضِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا
اس بات کا بیان کہ دو امانتداروں کے حُکم سے زکاۃ ارکان اسلام میں سے ہے۔ ایک آسمانی امین جبرائیل عليه السلام ہیں اور دوسرے زمین پر (اللہ تعالیٰ کے) امین نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
حدیث نمبر: 2244
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا ابن علية ، حدثنا ابو حيان . ح وحدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا جرير ، عن ابي حيان التيمي . ح وحدثنا موسى بن عبد الرحمن المسروقي ، حدثنا ابو اسامة ، حدثني ابو حيان التيمي . ح وحدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي ، اخبرنا محمد بن بشر ، حدثني ابو حيان ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس إذ اتاه رجل يمشي، فقال: يا رسول الله، " ما الإيمان؟ , قال: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث الآخر"، قال: يا رسول الله،" ما الإسلام؟ قال: ان تعبد الله لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان"، قال: يا رسول الله،" ما الإحسان؟ قال: الإحسان ان تعبد الله كانك تراه، فإنك إن لم تكن تراه، فإنه يراك"، قال: يا رسول الله،" متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن ساحدثك عن اشراطها: إذا ولدت الامة ربها يعني السراري، فقال: فذلك من اشراطها: وإذا تطاول رعاء البهم في البنيان، فذلك اشراطها، وإذا صار العراة الحفاة رءوس الناس، فذلك من اشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله، ثم تلا: إن الله عنده علم الساعة سورة لقمان آية 34 إلى آخر السورة، ثم ادبر الرجل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذا جبريل يعلم الناس دينهم" ، هذا حديث محمد بن بشر، قال ابو بكر: ابو حيان هذا اسمه يحيى بن سعيد بن حيان التيمي تيم الربابحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ . ح وَحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ . ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ . ح وَحَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " مَا الإِيمَانُ؟ , قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ لا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: الإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنِ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا يَعْنِي السَّرَارِيَّ، فَقَالَ: فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا: وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَلِكَ أَشْرَاطُهَا، وَإِذَا صَارَ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ، فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لا يَعْلَمُهُنَّ إِلا اللَّهُ، ثُمَّ تَلا: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ سورة لقمان آية 34 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا جِبْرِيلُ يُعَلِّمُ النَّاسَ دِينَهُمْ" ، هَذَا حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُو حَيَّانَ هَذَا اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ تَيْمُ الرَّبَابِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس درمیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے باہر) لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے جب ایک شخص چلتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالیٰ، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتاب، اُس کی ملاقات اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے اور تُو آخرت کے دن اُٹھنے پر یقین رکھے۔ اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت کرے اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے، اور نماز قائم کرے اور تُو فرض زکاۃ ادا کرے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، احسان کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تُو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کیونکہ اگر تُو اُسے دیکھ نہیں رہا تو بلاشبہ وہ تو تجھےدیکھ رہا ہے۔ اُس نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص سے قیامت کے بارے میں پوچھا، جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن میں تمہیں اس کی نشانیاں بتا دیتا ہوں۔ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے گی تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی اور جب بکریوں کے چرواہے بلند وبالا عمارات بنانے میں فخر و غرور کا اظہار کریں گے تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی اور جب ننگے بدن، ننگے پاؤں چلنے والے (فقراء) لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی۔ قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یا آیت تلاوت فرمائی «‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» ‏‏‏‏ [ سورة لقمان: 34 ] بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا پوری طرح باخبر ہے۔ پھر وہ شخص پشت پھیر کر چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل عليه السلام ہیں، لوگوں کو اُن کا دین سکھانے آئے تھے یہ روایت جناب محمد بن بشر کی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.