امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل روایات میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ روزے دار کا ہر نماز کے وقت مسواک کرنا باعث فضیلت و اجر ہے۔ جیسا کہ بے روزہ دار شخص کے لئے فضیلت کا باعث ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ”اگر مجھے اپنی اُمّت کو مشقّت میں ڈال دنیے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اُنہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حُکم دیتا۔“ آپ نے اس فرمان عالی میں روزے دار کو بے روزہ داروں سے مستثنی نہیں کیا (بلکہ دونوں کے لئے یہی حُکم دینے کی خواہش کی)۔
قد روى عاصم بن عبد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، عن ابيه ، قال:" رايت النبي صلى الله عليه وسلم ما لا احصي يستاك وهو صائم" . حدثنا ابو موسى ، حدثنا سفيان يعني ابن عيينة , عن عاصم بن عبيد الله . ح وحدثنا محمد بن بشار , وابو موسى ، قالا: حدثنا يحيى ، قال بندار: قال: حدثنا سفيان , وقال ابو موسى: عن سفيان. ح وحدثنا ابو موسى , حدثنا عبد الرحمن , حدثنا سفيان . ح وحدثنا جعفر بن محمد الثعلبي , حدثنا وكيع , عن سفيان , عن عاصم بن عبيد الله ، غير ان ابا موسى، قال: في حديث يحيى، وقال جعفر بن محمد في حديثه: ما لا احصي , او ما لا اعده. قال ابو بكر: وانا بريء من عهدة عاصم. سمعت محمد بن يحيى، يقول: عاصم بن عبيد الله ليس عليه قياس. وسمعت مسلم بن حجاج، يقول: سالنا يحيى بن معين , فقلنا: عبد الله بن محمد بن عقيل احب إليك ام عاصم بن عبيد الله؟ قال: لست احب واحدا منهما.. قال ابو بكر: كنت لا اخرج حديث عاصم بن عبيد الله في هذا الكتاب , ثم نظرت , فإذا شعبة، والثوري قد رويا عنه , ويحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي، وهما إماما اهل زمانهما قد رويا عن الثوري عنه. وقد روى عنه مالك خبرا في غير الموطإقَدْ رَوَى عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لا أُحْصِي يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ" . حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , وَأَبُو مُوسَى ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ بُنْدَارٌ: قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , وَقَالَ أَبُو مُوسَى: عَنْ سُفْيَانَ. ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وَحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّعْلَبِيُّ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، غَيْرَ أَنَّ أَبَا مُوسَى، قَالَ: فِي حَدِيثِ يَحْيَى، وَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي حَدِيثِهِ: مَا لا أُحْصِي , أَوْ مَا لا أَعُدُّهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَأَنَا بَرِيءٌ مِنْ عُهْدَةِ عَاصِمٍ. سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى، يَقُولُ: عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ لَيْسَ عَلَيْهِ قِيَاسٌ. وَسَمِعْتُ مُسْلِمَ بْنَ حَجَّاجٍ، يَقُولُ: سَأَلْنَا يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ , فَقُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: لَسْتُ أُحِبُّ وَاحِدًا مِنْهُمَا.. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: كُنْتُ لا أُخَرِّجُ حَدِيثَ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ فِي هَذَا الْكِتَابِ , ثُمَّ نَظَرْتُ , فَإِذَا شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ قَدْ رَوَيَا عَنْهُ , وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَهُمَا إِمَامَا أَهْلِ زَمَانِهِمَا قَدْ رَوَيَا عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْهُ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكٌ خَبَرًا فِي غَيْرِ الْمُوَطَّإِ
حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے بیشمار مرتبہ دیکھا ہے۔ جناب جعفر بن محمد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ (اتنی بار دیکھا ہے) جسے میں شمار نہیں کر سکتا یا میں اسے گن نہیں سکتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں عاصم کے معاملے سے بری الذمہ ہوں۔ میں نے محمد بن یحییٰ کو فرماتے ہوئے سنا کہ عاصم بن عبید اللہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ اور میں نے امام مسلم بن حجاج رحمه الله کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم نے امام یحییٰ بن معین رحمه الله سے سوال کیا تو ہم نے عرض کی کہ آپ کے نزدیک عبداللہ بن محمد بن عقیل پسندیدہ راوی ہے یا عاصم بن عبید اللہ؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں ان دونوں میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں عاصم بن عبید اللہ کی روایات اس کتاب میں بیان نہیں کر رہا تھا، پھر میں نے دیکھا کہ امام شعبہ اور امام ثوری نے اس سے روایات لی ہیں۔ اور امام یحییٰ بن سعید اور امام عبدالرحمٰن بن مہدی نے امام سفیان ثوری کے واسطے سے عاصم سے روایات بیان کی ہیں جبکہ یہ دونوں اپنے وقت کے جلیل القدر ائمہ ہیں۔ اور امام مالک رحمه الله نے بھی ”المؤطا“ کے علاوہ اپنی کسی کتاب میں اس سے روایت بیان کی ہے۔ (اس لئے میں نے بھی اس سے روایت لے لی ہے)۔