سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دروازے کے پیچھے سن رہی تھیں، تو اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے جنابت کی حالت میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، تو کیا میں روزہ رکھوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بھی اس حالت میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے کہ میں جنبی ہوتا ہوں، تو میں روزہ رکھتا ہوں، اُس نے عرض کی کہ ”اے اللہ کے رسول، آپ ہماری طرح نہیں ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام قصور معاف فرما دیئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم، بیشک مجھے امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کو جاننے والا ہوں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ امید اسی جنس کے متعلق ہے جس کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ آدمی جس چیز میں کوئی شک و شبہ نہ رکھتا ہو اس کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ مجھے امید ہے کہ میں ایسے ایسے ہوں گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں بلکہ آپ کو مکمّل یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والے اور ان سب سے بڑھ کر تقویٰ کی چیزوں کو جاننے والے ہیں۔ یہ مسئلہ اسی قسم سے ہے جو علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ مؤمن ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ میں مؤمن ہوں۔ جبکہ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ ان مؤمنوں میں سے تھے جن پر مؤمنوں کے احکام نکا ح، خرید و فروخت اور شریعت کے دیگر احکام لاگو ہوتے ہیں۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔ لیجیئے اس بات کی واضح دلیل سنیے کہ آپ کے اس فرمان کہ ”مجھے امید ہے“ سے مراد پختہ یقین ہے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ آپ نے قسم اُٹھا کر فرمایا تھا کہ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملے میں رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے اعراض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ میں انہیں ایک حُکم دیتا ہوں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم، میں ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہوں اور ان سے بڑھ کر اللہ سے ڈرتا ہوں۔“