جُمَّاعُ أَبْوَابِ غُسْلِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ فَرْضٍ وَلَا إِيجَابٍ غیر فرضی اور غیر واجبی، مستحب اور صفائی ستھرائی کے لیے غسل کے ابواب کا مجموعہ 201. (200) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اغْتِسَالَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْإِغْمَاءِ لَمْ يَكُنِ اغْتِسَالَ فَرْضٍ وَوُجُوبٍ، اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیہوشی کی وجہ سے غسل کرنا فرض اور وجوبی غسل نہیں تھا
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ہوشی کی حالت میں پہنچنے والے غم سے سکون حاصل کرنے کے لیے غسل کیا تھا تاکہ آپ کا جسم مبارک معتدل اور پرسکون ہو جائے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تھے، فرمایا: ”مُجھ پر سات مشکیزوں سے پانی ڈالو جن کے سر بندھن کھولے نہ گئے ہوں۔ شاید کہ میں سکون پاؤں تو لوگوں کو وصیت کروں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے تانبے کے ٹب میں بٹھایا اور ان مشکیزوں میں سے پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرڈالا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرنے لگے کہ تم نے تعمیل ارشاد کردی ہے۔ (یعنی رُک جاؤ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لےگئے، اما م صاحب اپنے استاد محمد بن یحییٰ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں مگر اُنہوں نے «من نحاس» ”پیتل کا ٹب“ نہیں کہا، لیکن اُنہوں نے یہ روایت بیشک حضرت عروہ ہی سے بیان کی ہے۔ (جبکہ پچھلی سند میں عروہ یا عمرہ سے بیان کیا تھا)۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|