(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث عن يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ان ابن عباس رضي الله عنهما، كان يحدث" ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني رايت الليلة في المنام ظلة تنطف السمن والعسل، فارى الناس يتكففون منها، فالمستكثر والمستقل، وإذا سبب واصل من الارض إلى السماء، فاراك اخذت به فعلوت، ثم اخذ به رجل آخر فعلا به ثم اخذ به رجل آخر فعلا به ثم اخذ به رجل آخر فانقطع ثم وصل، فقال ابو بكر: يا رسول الله بابي انت والله لتدعني فاعبرها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اعبرها، قال: اما الظلة فالإسلام، واما الذي ينطف من العسل والسمن فالقرآن، حلاوته تنطف، فالمستكثر من القرآن والمستقل، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض فالحق الذي انت عليه، تاخذ به فيعليك الله ثم ياخذ به رجل من بعدك فيعلو به ثم ياخذ به رجل آخر فيعلو به ثم ياخذه رجل آخر فينقطع به، ثم يوصل له فيعلو به، فاخبرني يا رسول الله بابي انت، اصبت ام اخطات؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم: اصبت بعضا واخطات بعضا، قال: فوالله يا رسول الله لتحدثني بالذي اخطات، قال: لا تقسم".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يُحَدِّثُ" أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ السَّمْنَ وَالْعَسَلَ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَإِذَا سَبَبٌ وَاصِلٌ مِنَ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ، فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ ثُمَّ وُصِلَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي فَأَعْبُرَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْبُرْهَا، قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا الَّذِي يَنْطُفُ مِنَ الْعَسَلِ وَالسَّمْنِ فَالْقُرْآنُ، حَلَاوَتُهُ تَنْطُفُ، فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ، تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُهُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوَصَّلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ، أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي بِالَّذِي أَخْطَأْتُ، قَالَ: لَا تُقْسِمْ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ انہیں اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ کوئی زیادہ اور کوئی کم اور ایک رسی ہے جو زمین سے آسمان تک لٹکی ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر اسے پکڑ اور اوپر چڑھ گئے پھر ایک دوسرے صاحب نے بھی اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چڑھ گئے پھر ایک تیسرے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گئے پھر چوتھے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی اس کے ذریعہ چڑھ گئے۔ پھر وہ رسی ٹوٹ گئی، پھر جڑ گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی تعبیر بیان کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیان کرو۔ انہوں نے کہا سایہ سے مراد دین اسلام ہے اور شہد اور گھی ٹپک رہا تھا وہ قرآن مجید کی شیرینی ہے اور بعض قرآن کو زیادہ حاصل کرنے والے ہیں، بعض کم اور آسمان سے زمین تک کی رسی سے مراد وہ سچا طریق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اس کے ذریعہ اللہ آپ کو اٹھا لے گا پھر آپ کے بعد ایک دوسرے صاحب آپ کے خلیفہ اول اسے پکڑیں گے وہ بھی مرتے دم تک اس پر قائم رہیں گے۔ پھر تیسرے صاحب پکڑیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا۔ پھر چوتھے صاحب پکڑیں گے تو ان کا معاملہ خلافت کا کٹ جائے گا وہ بھی اوپر چڑھ جائیں گے۔ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے کیا میں نے جو تعبیر دی ہے وہ غلط ہے یا صحیح۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض حصہ کی صحیح تعبیر دی ہے اور بعض کی غلط۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پس واللہ! آپ میری غلطی کو ظاہر فرما دیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم نہ کھاؤ۔
Narrated Ibn `Abbas: A man came to Allah's Apostle and said, "I saw in a dream, a cloud having shade. Butter and honey were dropping from it and I saw the people gathering it in their hands, some gathering much and some a little. And behold, there was a rope extending from the earth to the sky, and I saw that you (the Prophet) held it and went up, and then another man held it and went up and (after that) another (third) held it and went up, and then after another (fourth) man held it, but it broke and then got connected again." Abu Bakr said, "O Allah's Apostle! Let my father be sacrificed for you! Allow me to interpret this dream." The Prophet said to him, "Interpret it." Abu Bakr said, "The cloud with shade symbolizes Islam, and the butter and honey dropping from it, symbolizes the Qur'an, its sweetness dropping and some people learning much of the Qur'an and some a little. The rope which is extended from the sky to the earth is the Truth which you (the Prophet) are following. You follow it and Allah will raise you high with it, and then another man will follow it and will rise up with it and another person will follow it and then another man will follow it but it will break and then it will be connected for him and he will rise up with it. O Allah's Apostle! Let my father be sacrificed for you! Am I right or wrong?" The Prophet replied, "You are right in some of it and wrong in some." Abu Bakr said, "O Allah's Prophet! By Allah, you must tell me in what I was wrong." The Prophet said, "Do not swear."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 170