حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، انه قال: رميت طائرين بحجر وانا بالجرف، فاصبتهما، " فاما احدهما فمات، فطرحه عبد الله بن عمر، واما الآخر: فذهب عبد الله بن عمر يذكيه بقدوم، فمات قبل ان يذكيه، فطرحه عبد الله ايضا "حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّهُ قَالَ: رَمَيْتُ طَائِرَيْنِ بِحَجَرٍ وَأَنَا بِالْجُرْفِ، فَأَصَبْتُهُمَا، " فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَمَاتَ، فَطَرَحَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَمَّا الْآخَرُ: فَذَهَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُذَكِّيهِ بِقَدُومٍ، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيَهُ، فَطَرَحَهُ عَبْدُ اللَّهِ أَيْضًا "
نافع نے کہا: میں نے دو چڑیاں ماریں پتھر سے جرف میں، ایک مر گئی اس کو پھینک دیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، اور دوسری کو دوڑے ذبح کرنے کو، وہ مر گئی ذبح سے پہلے، اس کو بھی پھینک دیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے۔
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان القاسم بن محمد،" كان يكره ما قتل المعراض والبندقة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ،" كَانَ يَكْرَهُ مَا قَتَلَ الْمِعْرَاضُ وَالْبُنْدُقَةُ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت قاسم بن محمد اس جانور کو کھانا مکروہ جانتے تھے جو لاٹھی یا گولی سے مارا جائے۔
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان سعيد بن المسيب،" كان يكره ان تقتل الإنسية بما يقتل به الصيد من الرمي واشباهه" . قال مالك: ولا ارى باسا بما اصاب المعراض إذا خسق وبلغ المقاتل ان يؤكل، قال الله تبارك وتعالى: يايها الذين آمنوا ليبلونكم الله بشيء من الصيد تناله ايديكم ورماحكم سورة المائدة آية 94، قال: فكل شيء ناله الإنسان بيده، او رمحه، او بشيء من سلاحه، فانفذه وبلغ مقاتله، فهو صيد، كما قال الله تعالى. وحدثني، عن مالك، انه سمع اهل العلم، يقولون: إذا اصاب الرجل الصيد، فاعانه عليه غيره من ماء، او كلب غير معلم، لم يؤكل ذلك الصيد، إلا ان يكون سهم الرامي قد قتله، او بلغ مقاتل الصيد، حتى لا يشك احد في انه هو قتله، وانه لا يكون للصيد حياة بعده، قال: وسمعت مالكا، يقول: لا باس باكل الصيد وإن غاب عنك مصرعه، إذا وجدت به اثرا من كلبك، او كان به سهمك، ما لم يبت، فإذا بات فإنه يكره اكلهوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ،" كَانَ يَكْرَهُ أَنْ تُقْتَلَ الْإِنْسِيَّةُ بِمَا يُقْتَلُ بِهِ الصَّيْدُ مِنَ الرَّمْيِ وَأَشْبَاهِهِ" . قَالَ مَالِكٌ: وَلَا أَرَى بَأْسًا بِمَا أَصَابَ الْمِعْرَاضُ إِذَا خَسَقَ وَبَلَغَ الْمَقَاتِلَ أَنْ يُؤْكَلَ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ سورة المائدة آية 94، قَالَ: فَكُلُّ شَيْءٍ نَالَهُ الْإِنْسَانُ بِيَدِهِ، أَوْ رُمْحِهِ، أَوْ بِشَيْءٍ مِنْ سِلَاحِهِ، فَأَنْفَذَهُ وَبَلَغَ مَقَاتِلَهُ، فَهُوَ صَيْدٌ، كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى. وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَهْلَ الْعِلْمِ، يَقُولُونَ: إِذَا أَصَابَ الرَّجُلُ الصَّيْدَ، فَأَعَانَهُ عَلَيْهِ غَيْرُهُ مِنْ مَاءٍ، أَوْ كَلْبٍ غَيْرِ مُعَلَّمٍ، لَمْ يُؤْكَلْ ذَلِكَ الصَّيْدُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ سَهْمُ الرَّامِي قَدْ قَتَلَهُ، أَوْ بَلَغَ مَقَاتِلَ الصَّيْدِ، حَتَّى لَا يَشُكَّ أَحَدٌ فِي أَنَّهُ هُوَ قَتَلَهُ، وَأَنَّهُ لَا يَكُونُ لِلصَّيْدِ حَيَاةٌ بَعْدَهُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: لَا بَأْسَ بِأَكْلِ الصَّيْدِ وَإِنْ غَابَ عَنْكَ مَصْرَعُهُ، إِذَا وَجَدْتَ بِهِ أَثَرًا مِنْ كَلْبِكَ، أَوْ كَانَ بِهِ سَهْمُكَ، مَا لَمْ يَبِتْ، فَإِذَا بَاتَ فَإِنَّهُ يُكْرَهُ أَكْلُهُ
حضرت سعید بن مسیّب مکروہ جانتے تھے ہلے ہوئے جانور کا مارنا، اس طرح جیسے شکار کو مارتے ہیں تیر وغیرہ سے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس لاٹھی میں نوک دار لوہا لگا ہوا ہو اگر اس کی نوک شکار پر لگے اور اس کو زخمی کرے تو اس کا کھانا درست ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! اللہ آزمائے گا تم کو اس شکار سے جس کو پہنچیں ہاتھ تمہارے اور تیر تمہارے۔“ اور جس جانور کو آدمی اپنے ہاتھوں اور تیروں سے مارے وہ شکار میں داخل ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے اہلِ علم سے سنا، کہتے تھے: اگر کسی شخص نے شکار کو زخم پہنچایا، پھر اس شکار کو دوسرا صدمہ بھی پہنچا، جیسے پانی میں گر پڑا یا غیر معلوم کتے نے اس پر چوٹ کی، تو اس شکار کو نہ کھائیں گے مگر اس صورت میں جب یقین ہو جائے کہ وہ جانور شکار مارنے والے کے زخم سے مرا۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر شکار زخم کھا کر غائب ہو جائے، پھر ملے اور اس پر نشان ہو شکاری کتے کے زخم کا، یا شکاری کا تیر اس میں لگا ہوا ہو، تو اس کا کھانا درست ہے، البتہ اگر رات گزر گئی ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8522، 8523، فواد عبدالباقي نمبر: 25 - كِتَابُ الصَّيْدِ-ح: 3»