757 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا محمد بن عجلان، انه سمع عياض بن عبد الله بن سعد بن ابي سرح العامري، يقول: سمعت ابا سعيد الخدري، يقول: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم علي المنبر: «ان اخوف ما اخاف عليكم ما يخرج الله عز وجل من نبات الارض، وزهرة الدنيا» ، قال: فقام رجل، فقال: يا رسول الله وهل ياتي الخير بالشر؟ ثلاث مرات، قال: فسكت رسول الله صلي الله عليه وسلم حتي راينا انه ينزل عليه، وكان إذا انزل عليه غشيه بهر وعرق، فلما سري عنه، قال: «اين السائل؟» قال: ها انا ذا يا رسول الله، صلي الله عليه وسلم، ولم ارد إلا خيرا، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «إن الخير لا ياتي إلا بالخير، إن الخير لا ياتي إلا بالخير، إن الخير لا ياتي إلا بالخير، ولكن الدنيا خضرة حلوة، وكل ما ينبت الربيع يقتل حبطا، او يلم إلا آكلة الخضر، تاكل حتي إذا امتدت خاصرتاها استقبلت الشمس، فثلطت او بالت، ثم عادت فاكلت، ثم افاضت فاجترت، من اخذ مالا بحقه بورك له فيه، ومن اخذ مالا بغير حقه لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلي» قال سفيان: «كثيرا ما كان الاعمش يستعيدني هذا الحديث كلما جئته» 757 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ عِيَاضَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الْعَامِرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي الْمِنْبَرِ: «أَنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ نَبَاتِ الْأَرْضِ، وَزَهْرَةُ الدُّنْيَا» ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّي رَأَيْنَا أَنَّهُ يُنَزَّلُ عَلَيْهِ، وَكَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ غَشِيَهُ بُهْرٌ وَعَرَقٌ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» قَالَ: هَا أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أُرِدْ إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِالْخَيْرِ، وَلَكِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَكُلُّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يُقْتَلُ حَبَطًا، أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةُ الْخَضِرِ، تَأْكُلُ حَتَّي إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، فَثَلَطَتْ أَوْ بَالَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، ثُمَّ أَفَاضَتْ فَاجْتَرَّتْ، مَنْ أَخَذَ مَالًا بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَي» قَالَ سُفْيَانُ: «كَثِيرًا مَا كَانَ الْأَعْمَشُ يَسْتَعِيدُنِي هَذَا الْحَدِيثَ كُلَّمَا جِئْتُهُ»
757- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پریہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے زمین کے نباتاب اور دنیاوی آرائش و زیبائش کو ظاہر کردے گا۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک صاحب کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا بھلائی برائی کولے کرآئے گی؟ انہوں نے تین مرتبہ یہ بات عرض کی، راوی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہورہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھول جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آجاتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں یہاں ہوں۔ میں نے صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بھلائی صرف بھلائی کو لے کر آتی ہے۔ بے شک بھلائی صرف بھلائی ہی کو لے کر آتی ہے۔ بے شک بھلائی صرف بھلائی ہی کولے کر آتی ہے۔ تاہم دنیا سر سبز اور میٹھی ہے موسم بہار جو کچھ اگاتا ہے اس کے نتیجے میں کچھ جانور زیادہ کھانے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور کچھ موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم سبزہ کھانے والے کا حکم مختلف ہے کیونکہ وہ اسے کھاتا ہے، تو اسکے پہلو پھول جاتے ہیں۔ وہ دھوپ میں آتا ہے وہاں لید کرتا ہے پیشاب کرتا ہے، پھر واپس جاتا ہے، پھر کھاتاہے، پھر روانہ ہوتا ہے اور جگالی کرتا ہے، تو جو شخص مال کو اس کے حق کے ہمراہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس مال میں برکت رکھی جاتی ہے۔ اور جو شخص مال کوناحق طور پر حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس مال میں برکت نہیں رکھی جاتی۔ اور اس کی مثال اس شخص کی مانند ہوتی ہے، جو کھانے کے باوجود سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔“ سفیان کہتے ہیں۔ میں جب کبھی اعمش کے پاس گیا انہوں نے مجھ سے باربار یہی روایت سنانے کی فرمائش کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 921، 1465، 2842، 6427، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1052، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3225، 3226، 3227، 4513، 5174، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2580، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3995، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5792، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 11192 برقم: 11194»