حدثنا احمد بن محمد بن مهدي الهروي ببغداد، حدثنا علي بن خشرم ، حدثنا الفضل بن موسى السيناني ، عن عبد الله بن كيسان، حدثنا عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:"خرج ابو بكر بالهاجرة، فسمع بذلك عمر فخرج، فإذا هو بابي بكر، فقال: يا ابا بكر، ما اخرجك هذه الساعة؟، فقال: اخرجني والله ما اجد في بطني من حاق الجوع، فقال: وانا والله ما اخرجني غيره، فبينما هما كذلك، إذ خرج عليهما النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فقال: ما اخرجكما هذه الساعة؟، فقالا: اخرجنا والله ما نجد في بطوننا من حاق الجوع، فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: انا والذي نفسي بيده ما اخرجني غيره، فقاموا، فانطلقوا حتى اتوا باب ابي ايوب الانصاري، وكان ابو ايوب ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما او لبنا، فابطا يومئذ، فلم يات لحينه، فاطعمه اهله، وانطلق إلى نخله يعمل فيه، فلما اتوا باب ابي ايوب خرجت امراته، فقالت: مرحبا برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وبمن معه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: فاين ابو ايوب؟، فقالت: ياتيك يا نبي الله الساعة، فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبصر به ابو ايوب وهو يعمل في نخل له فجاء يشتد حتى ادرك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: مرحبا بنبي الله وبمن معه، فقال: يا رسول الله، ليس بالحين الذي كنت تجيئني فيه، فرده، فجاء إلى عذق النخل، فقطعه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما اردت إلى هذا؟، فقال: يا رسول الله، احببت ان تاكل من رطبه، وبسره، وتمره، وتذنوبه، ولاذبحن لك مع هذا، فقال: إن ذبحت، فلا تذبحن ذات در، فاخذ عناقا له او جديا فذبحه، وقال لامراته: اختبزي، واطبخ انا، فانت اعلم بالخبز، فعمد إلى نصف الجدي فطبخه وشوى نصفه، فلما ادرك بالطعام وضع بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الجدي، فوضعه على رغيف، ثم قال: يا ابا ايوب، ابلغ بهذا فاطمة، فإنها لم تصب مثل هذا منذ ايام، فلما اكلوا وشبعوا قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: خبز، ولحم، وبسر، وتمر، ورطب، ودمعت عيناه، ثم قال: هذا من النعيم الذي تسالون عنه يوم القيامة، فكبر ذلك على اصحابه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا اصبتم مثل هذا، وضربتم بايديكم، فقولوا: بسم الله، وبركة الله، فإذا شبعتم، فقولوا: الحمد لله الذي اشبعنا واروانا وانعم وافضل، فإن هذا كفاف بهذا، وكان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لا ياتي إليه احد معروفا إلا احب ان يجازيه، فقال لابي ايوب: ائتنا غدا، فلم يسمع، فقال له عمر: إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يامرك ان تاتيه، فلما اتاه اعطاه وليدة، فقال: يا ابا ايوب، استوصي بهذه خيرا، فإنا لم نر إلا خيرا ما دامت عندنا، فلما جاء بها ابو ايوب، فقال ما اجد لوصية رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم شيئا خيرا من ان اعتقها، فاعتقها"، لم يروه عن عبد الله بن كيسان، إلا الفضل بن موسىحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَهْدِيٍّ الْهَرَوِيُّ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَيْسَانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:"خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ بِالْهَاجِرَةِ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ عُمَرُ فَخَرَجَ، فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا أَخْرَجَكَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟، فَقَالَ: أَخْرَجَنِي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ فِي بَطْنِي مِنْ حَاقِ الْجُوعِ، فَقَالَ: وَأَنَا وَاللَّهِ مَا أَخْرَجَنِي غَيْرُهُ، فَبَيْنَمَا هُمَا كَذَلِكَ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَخْرَجَكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ؟، فَقَالا: أَخْرَجَنَا وَاللَّهِ مَا نَجِدُ فِي بُطُونِنَا مِنْ حَاقِ الْجُوعِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: أَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَخْرَجَنِي غَيْرُهُ، فَقَامُوا، فَانْطَلَقُوا حَتَّى أَتَوْا بَابَ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ ذَكَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا أَوْ لَبَنًا، فَأَبْطَأَ يَوْمَئِذٍ، فَلَمْ يَأْتِ لِحِينِهِ، فَأَطْعَمَهُ أَهْلَهُ، وَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلِهِ يَعْمَلُ فِيهِ، فَلَمَّا أَتَوْا بَابَ أَبِي أَيُّوبَ خَرَجَتِ امْرَأَتُهُ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَيْنَ أَبُو أَيُّوبَ؟، فَقَالَتْ: يَأْتِيكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ السَّاعَةَ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَصُرَ بِهِ أَبُو أَيُّوبَ وَهُوَ يَعْمَلُ فِي نَخْلٍ لَهُ فَجَاءَ يَشْتَدُّ حَتَّى أَدْرَكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِنَبِيِّ اللَّهِ وَبِمَنْ مَعَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيْسَ بِالْحِينِ الَّذِي كُنْتَ تَجِيئَنِي فِيهِ، فَرَدَّهُ، فَجَاءَ إِلَى عِذْقِ النَّخْلِ، فَقَطَعَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَرَدْتَ إِلَى هَذَا؟، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْبَبْتُ أَنْ تَأْكُلَ مِنْ رُطَبِهِ، وَبُسْرِهِ، وَتمْرِهِ، وَتُذْنُوبِهِ، وَلأَذْبَحَنَّ لَكَ مَعَ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ ذَبَحْتَ، فَلا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ، فَأَخَذَ عَنَاقًا لَهُ أَوْ جَدْيًا فَذَبَحَهُ، وَقَالَ لامْرَأَتِهِ: اخْتَبِزِي، وَأَطْبُخُ أَنَا، فَأَنْتِ أَعْلَمُ بِالْخَبْزِ، فَعَمَدَ إِلَى نِصْفِ الْجَدْيِ فَطَبَخَهُ وَشَوَى نِصْفَهُ، فَلَمَّا أُدْرِكَ بِالطَّعَامِ وَضَعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَدْيِ، فَوَضَعَهُ عَلَى رَغِيفٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا أَيُّوبَ، أَبْلِغْ بِهَذَا فَاطِمَةَ، فَإِنَّهَا لَمْ تُصِبْ مثل هَذَا مُنْذُ أَيَّامٍ، فَلَمَّا أَكَلُوا وَشَبِعُوا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: خُبْزٌ، وَلَحْمٌ، وَبُسْرٌ، وَتَمْرٌ، وَرُطَبٌ، وَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَصَبْتُمْ مثل هَذَا، وَضَرَبْتُمْ بِأَيْدِيكُمْ، فَقُولُوا: بِسْمِ اللَّهِ، وَبَرَكَةِ اللَّهِ، فَإِذَا شَبِعْتُمْ، فَقُولُوا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَشْبَعْنَا وَأَرْوَانَا وَأَنْعَمَ وَأَفْضَلَ، فَإِنَّ هَذَا كَفَافٌ بِهَذَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لا يَأْتِي إِلَيْهِ أَحَدٌ مَعْرُوفًا إِلا أَحَبَّ أَنْ يُجَازِيَهُ، فَقَالَ لأَبِي أَيُّوبَ: ائْتِنَا غَدًا، فَلَمْ يَسْمَعْ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَهَ، فَلَمَّا أَتَاهُ أَعْطَاهُ وَلِيدَةً، فَقَالَ: يَا أَبَا أَيُّوبَ، اسْتَوْصِي بِهَذِهِ خَيْرًا، فَإِنَّا لَمْ نَرَ إِلا خَيْرًا مَا دَامَتْ عِنْدَنَا، فَلَمَّا جَاءَ بِهَا أَبُو أَيُّوبَ، فَقَالَ مَا أَجِدُ لِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ أَنْ أُعْتِقَهَا، فَأَعْتَقَهَا"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَيْسَانَ، إِلا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دوپہر کو نکلے تو یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سنی تو وہ بھی باہر نکل آئے اور کہنے لگے: ابوبکر تجھے کون سی چیز اس وقت باہر لے آئی؟ انہوں نے کہا: مجھے کوئی چیز باہر نہیں لائی، صرف اس بات نے مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے کہ سخت بھوک کی وجہ سے میرے پیٹ میں کچھ بھی نہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! مجھے بھی یہی چیز گھر سے باہر لائی ہے۔ اسی طرح وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی باہر تشریف لے آئے، انہوں نے پوچھا: ”اس وقت تمہیں گھر سے کون سی چیز باہر نکال لائی؟“ وہ دونوں کہنے لگے: ہمیں یہ چیز باہر نکال لائی کہ ہمارے پیٹوں میں کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: ”جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اُس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی یہی چیز نکال کر باہر لے آئی ہے۔“ وہ تینوں اٹھے اور سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر چلے گئے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے اور دودھ کا کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دیر کر دی اور وقت پر نہ پہنچ سکے تو وہ کھانا اس کے گھر والوں نے کھا لیا۔ وہ اپنی کھجوروں کے باغ کی طرف چلے گئے جس میں وہ کام کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے تو ان کی عورت باہر آئی اور کہنے لگی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ آنے والوں کو خوش آمدید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوایوب کہاں ہیں؟“ اس نے کہا: اﷲ کے رسول! ابھی آتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا، وہ اپنے باغ میں کام کر رہے تھے، وہ دوڑتے ہوئے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ آنے والوں کو خوش آمدید، پھر سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ ایسا وقت نہیں جس میں آپ آیا کرتے تھے۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خوشہ لے کر آگئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: ”میں تو یہ نہیں چاہتا تھا۔“ انہوں نے کہا کہ: میں نے یہ پسند کیا کہ آپ تازہ اور تر کھجوریں بھی کھائیں اور اس کے ساتھ کچھ کچی کھجوریں بھی کھائیں، اور میں آپ کے لیے ایک بکری کا بچہ ذبح کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کچھ ذبح کرنا ہے تو دودھ والا نہ کرنا۔“ انہوں نے بکری کا بچہ لے کر ذبح کر دیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ روٹی پکاؤ اور میں سالن پکا تا ہوں، کیونکہ تو روٹی پکانا اچھی طرح جانتی ہے، پھر میں نے آدھے بچے کو پکا لیا اور آدھے کو بھون لیا۔ جب کھانا پک گیا تو انہوں نے وہ کھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھ دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے بچے سے کچھ حصہ لیا اور ایک روٹی پر رکھا اور کہا: ”ابوایوب! یہ کھانا فاطمہ کو پہنچا دو، اس نے کئی دنوں سے ایسا کھانا نہیں دیکھا۔“ جب وہ کھانا کھا کر سیر ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روٹیاں، گوشت، اور تر کھجوریں۔“ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور فرمایا: ”یہ اﷲ کی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔“ تو یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ایسی نعمت پاؤ تو اپنا ہاتھ اس میں ڈالو تو کہو: «بِسْمِ اللّٰهِ وَ بَرَكَةِ اللّٰهِ» پھر جب تم سیر ہو جاؤ تو کہو: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَشْبَعْنَا وَ اَرْوَانَا وَ اَنْعَمَ وَ اَفْضَلَ»”سب تعریفیں اس ﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں سیر کیا اور سیراب کیا اور ہم پر بہت زیادہ انعام فرمایا۔“ تو یہ دعا اس نعمت کا بدلہ ہو جائے گی۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کوئی اچھی چیز لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اس کا بدلہ دینا پسند کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا: ”کل ہمارے پاس آنا۔“ وہ نہ سن سکے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم ان کے پاس آؤ، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لونڈی عطا کی اور فرمایا: ”ابوایوب! اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا، کیونکہ ہم نے اس کو اچھا پایا جب تک یہ ہمارے پاس رہی۔“ جب سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس کو لے کر آئے تو کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو اور کسی طریقے سے اچھی طرح پورا نہیں کر سکتا مگر یہ کہ میں اسے آزاد کر دوں، تو انہوں نے اس کو آزاد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5216، والضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 147، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7176، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2247، والطبراني فى «الصغير» برقم: 185 قال الهيثمي: رواه الطبراني في الصغير والأوسط، وفيه عبد الله بن كيسان المروزي، وقد وثقه ابن حبان، وضعفه غيره، وبقية رجاله رجال الصحيح. مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (10 / 317)»