مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفتن
فتنوں کا بیان
دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکے گا
حدیث نمبر: 875
Save to word اعراب
اخبرنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس قالت: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر ذات يوم وهو يضحك فقال:" إن تميم الداري حدثني بحديث فرحت به، فاحببت ان احدثكموه لتفرحوا بما فرح به نبيكم، حدث ان اناسا من فلسطين ركبوا السفينة في البحر فحالت بهم حتى فرقتهم في جزيرة من جزائر البحر، فإذا هم بدابة لباسة شعره، فقالوا: ما انت؟ قالت: انا الجساسة، قالوا: فاخبرنا بشيء، قال: ما انا مخبركم ولا مستخبركم شيئا، ولكن ائتوا اقصى القرية، فثم من يخبركم ويستخبركم، فاتينا اقصى القرية فإذا رجل موثق بسلسلة، فقال: اخبروني عن عين زغر، فقلنا: ملاى يتدفق، قال: فاخبروني عن بحيرة الطبرية، قلنا: ملاى يتدفق، قال: فاخبروني عن نخل بيسان الذي بين فلسطين والاردن هل اطعم؟ فقلنا: نعم، قال: فاخبروني عن النبي العربي الامي، هل خرج فيكم؟ فقلنا: نعم، قال: فهل دخل الناس؟ فقلنا: هم إليه سراع، قال: فنز نزوة كاد ان تنقطع السلسلة فقلنا: من انت؟ فقال: انا الدجال , وإنه يدخل الامصار كلها غير طيبة"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((وهذه طيبة)) ثلاثا يعني المدينة.أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ:" إِنَّ تَمِيمَ الدَّارِيَّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَرِحْتُ بِهِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِتَفْرَحُوا بِمَا فَرِحَ بِهِ نَبِيُّكُمْ، حَدَّثَ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا السَّفِينَةَ فِي الْبَحْرِ فَحَالَتْ بِهِمْ حَتَّى فَرَّقَتْهُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةِ شَعْرِهِ، فَقَالُوا: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: فَأَخْبَرَنَا بِشَيْءٍ، قَالَ: مَا أَنَا مُخْبِرَكُمُ وَلَا مُسْتَخْبِرَكُمْ شَيْئًا، وَلَكِنِ ائْتُوا أَقْصَى الْقَرْيَةِ، فَثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ، فَأَتَيْنَا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرٍ، فَقُلْنَا: مَلْأَى يَتَدَفَّقُ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ، قُلْنَا: مَلْأَى يَتَدَفَّقُ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ فِلَسْطِينَ وَالْأُرْدُنِ هَلْ أُطْعَمَ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنِ النَّبِيِّ الْعَرَبِيِّ الْأُمِّيِّ، هَلْ خَرَجَ فِيكُمْ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ دَخَلَ النَّاسُ؟ فَقُلْنَا: هُمْ إِلَيْهِ سِرَاعٌ، قَالَ: فَنَزَّ نَزْوَةً كَادَ أَنْ تَنْقَطِعَ السِّلْسِلَةُ فَقُلْنَا: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ , وَإِنَّهُ يَدْخُلُ الْأَمْصَارَ كُلَّهَا غَيْرَ طَيْبَةَ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَهَذِهِ طَيْبَةُ)) ثَلَاثًا يَعْنِي الْمَدِينَةَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے، آپ مسکرا رہے تھے، تو فرمایا: تمیم داری رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک بات بتائی ہے جس سے میں خوش ہوا ہوں، پس میں نے پسند کیا کہ میں تمہیں بھی بتاؤں تاکہ تم بھی اس چیز سے خوش ہو جاؤ جس کے ساتھ تمہارے نبی خوش ہوئے ہیں، اس نے مجھے بتایا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں سفینے میں سوار ہوئے، پس وہ انہیں بحری جزیروں میں سے ایک جزیرے میں لے گئی اور وہاں جا اتارا، وہاں انہوں نے ایک جانور دیکھا اس کا لباس بالوں کا بنا ہوا تھا، انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں جسامہ ہوں، انہوں نے کہا: ہمیں کسی چیز کے متعلق بتاؤ؟ اس نے کہا: میں تمہیں کچھ بتاؤں گی نہ تم سے کچھ پوچھوں گی، لیکن تم اس بستی کے آخری کنارے پر چلے جاؤ، وہاں کوئی ہے جو تمہیں بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، ہم بستی کے آخری کنارے پر پہنچے تو وہاں زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا ایک آدمی تھا، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمے کے متعلق بتاؤ؟ ہم نے کہا: بھرا پڑا ہے اور اچھل رہا ہے، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کے متعلق بتاؤ؟ ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اچھل رہا ہے، اس نے کہا: مجھے بیسان کے نخلستان کے متعلق بتاؤ جو کہ فلسطین اور اردن کے درمیان ہے کیا وہ پھل دے رہا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: مجھے اس عربی اُمِّی نبی کے متعلق بتاؤ، کیا وہ تم میں ظاہر ہو چکے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: کیا لوگ اسلام میں داخل ہو رہے رہیں؟ ہم نے کہا: تیزی کے ساتھ، وہ اس طرح زور سے کودا، قریب تھا کہ وہ زنجیر توڑ دیتا، ہم نے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: دجال ہوں وہ طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہو گا۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طیبہ ہے۔ تین بار فرمایا: یعنی مدینہ منورہ۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الملاحم، باب فى خير الجساسة، رقم: 4326. سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، باب فتنة الدجال، رقم: 4074. قال الشيخ الالباني. مسند احمد: 374/6. طبراني كبير، رقم: 293/24. 961.»
حدیث نمبر: 876
Save to word اعراب
اخبرنا ابو اسامة، نا المجالد، نا الشعبي، حدثتني فاطمة بنت قيس قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم في الهاجرة، وذلك في وقت لم يكن يخرج فيه، فصعد المنبر فقال:" ايها الناس، إني لم اقم مقامي هذا الفزع لرغبة ولا لرهبة ولكن تميم الداري اتاني فاخبرني خبرا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين، فاحببت ان انشر عليكم فرح نبيكم، اتاني فاخبرني ان رهطا من بني عمه ركبوا البحر فاصابتهم عاصف من الريح، فالجاتهم إلى جزيرة لا يعرفونها، فقعدوا في قويرب السفينة حتى خرجوا من البحر فإذا هم بشيء اسود واهدب كثير الشعر لا يدرون ارجل ام امراة، فقالوا لها: من انت؟ قالت: انا الجساسة، فقالوا لها: الا تخبرنا بشيء؟ فقالت: ما بمخبركم ولا مستخبركم شيئا ولكن هذا الدير قد رايتموه ففيه من هو إلى خبركم بالاشواق ان يخبركم ويستخبركم، فاتوا الدير فإذا هم بشيء موثق شديد الوثاق مظهر الحزن كثير التشكي، فسلموا عليه، فرد السلام ثم قال لهم: من اين انتم؟ فقلنا: من الشام، قال: فما فعلت العرب؟ اخرج نبيهم بعد؟ فقالوا: نعم، قال: فما فعل؟ قال: ناوءه قوم فاظهره الله عليهم فهم اليوم جمع، قال: ذاك خير لهم، قال: فالعرب اليوم إلههم واحد وكلمتهم واحدة؟ قالوا: نعم، قال: ذاك خير لهم، قال: فما فعل نخل بين عمان وبيسان؟ قالوا: هي صالحة يطعم جناه كل عام، قال: فما فعل عين زغر؟ قالوا: هي صالحة يشرب منها اهلها لسقيهم ويسقون منها زرعهم ونخلهم، قال: فما فعل بحيرة الطبرية؟ قالوا: هي ملاى يتدفق جانباها , ثم قال: فزفر زفرة ثم حلف لو قد انفلت من وثاقي هذا ما تركت ارضا لله إلا وطئته برجلي هاتين غير طيبة ليس لي عليها سبيل ولا سلطان"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إلى هذه انتهى فرحي، هذه طيبة، والذي نفسي بيده، إن هذه لطيبة، وقد حرم الله حرمي على الدجال - ثم حلف صلى الله عليه وسلم - ما بها طريق ضيق ولا واسع في سهل ولا جبل إلا عليه ملك شاهر السيف إلى يوم القيامة، ولا يستطيع الدجال ان يدخلها)).أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، نا الْمُجَالِدُ، نا الشَّعْبِيُّ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي الْهَاجِرَةِ، وَذَلِكَ فِي وَقْتٍ لَمْ يَكُنْ يَخْرُجُ فِيهِ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا الْفَزَعَ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنَّ تَمِيمَ الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ مِنَ الرِّيحِ، فَأَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا، فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبِ السَّفِينَةِ حَتَّى خَرَجُوا مِنَ الْبَحْرِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَسْوَدَ وَأَهْدَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ أَمِ امْرَأَةٌ، فَقَالُوا لَهَا: مَنْ أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، فَقَالُوا لَهَا: أَلَا تُخْبِرُنَا بِشَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: مَا بِمُخْبِرُكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرِكُمْ شَيْئًا وَلَكِنَّ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَأَيْتُمُوهُ فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ، فَأَتَوْا الدَّيْرَ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ مُظْهِرٍ الْحُزْنَ كَثِيرِ التَّشَكِّي، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ أَنْتُمْ؟ فَقُلْنَا: مِنَ الشَّامِ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ؟ أَخْرَجَ نَبِيُّهِمْ بَعْدُ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ قَالَ: نَاوَءَهُ قَوْمٌ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَهُمُ الْيَوْمَ جَمْعٌ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عُمَانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يُطْعَمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ عَيْنُ زُغَرٍ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِسَقْيِهِمْ وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ وَنَخْلَهُمْ، قَالَ: فَمَا فِعْلُ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: هِيَ مَلْأَى يَتَدَفَّقُ جَانِبَاهَا , ثُمَّ قَالَ: فَزَفَرَ زَفْرَةً ثُمَّ حَلَفَ لَوْ قَدِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا مَا تَرَكْتُ أَرْضًا لِلَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهُ بِرِجْلِيَّ هَاتَيْنِ غَيْرَ طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ وَلَا سُلْطَانٌ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِلَى هَذِهِ انْتَهَى فَرَحِي، هَذِهِ طَيْبَةُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ هَذِهِ لَطَيْبَةُ، وَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ حَرَمِيَ عَلَى الدَّجَّالِ - ثُمَّ حَلَفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا بِهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِي سَهْلٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرُ السَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالَ أَنْ يَدْخُلَهَا)).
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دوپہر کے وقت تشریف لائے اور یہ وہ وقت تھا کہ آپ اس وقت تشریف نہیں لایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے، تو فرمایا: لوگو! میں اس وقت اس جگہ کوئی ترغیب و ترھیب کی بات بتانے کھڑا نہیں ہوا، لیکن تمیم داری میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے ایک ایسی خبر بتائی کہ میں خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے قیلولہ بھی نہیں کر سکا، میں نے چاہا کہ میں تمہارے نبی کی خوشی کو تم تک بھی پہنچاؤں، وہ میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ میرے کچھ چچا زادوں نے بحری سفر کیا، انہیں طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور انہیں ایک غیر معروف جزیرے تک پہنچا دیا، وہ چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے کنارے پر پہنچے، وہاں انہوں نے بڑی بڑی پلکوں والی، گھنے بالوں والی، سیاہ فام چیز دیکھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ آدمی ہے یا عورت، انہوں نے اسے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں، انہوں نے اسے کہا: کیا تم ہمیں کسی چیز کے متعلق نہیں بتاؤ گی؟ اس نے کہا: میں نہ تمہیں کسی چیز کے متعلق بتاؤں گی نہ تم سے پوچھوں گی، لیکن یہ مندر جس کے تم قریب ہو وہاں ایک ہے جسے شوق ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے اور تم سے کچھ پوچھے، (تو وہ وہاں جائے) وہ مندر میں گئے تو انہوں نے وہاں ایک چیز کو خوب جکڑے ہوئے دیکھا، اس سے بہت رنج و غم ظاہر ہو رہا ہے اور بہت ہائے ہائے کر رہا ہے، انہوں نے اسے سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا، پھر انہیں کہا: تم کہاں سے ہو؟ ہم نے کہا: شام سے، اس نے کہا: عربوں کا کیا حال ہے؟ کیا ان کا نبی ظاہر ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: اس کا کیا حال ہے؟ قوم نے اس کا مقابلہ کیا تو اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس نے کہا: عربوں کی آج یہ حالت ہے کہ ان کا معبود ایک ہے، ان کا کلمہ ایک ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: یہ ان کے لیے بہتر ہے، اس نے کہا: عمان اور بیسان کے درمیان نخلستان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے کہا: زغر چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے، وہاں کے باشندے خود بھی پانی پیتے ہیں اور اس میں سے اپنی کھیتیاں اور نخلستان سیراب کرتے ہیں، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھرا ہوا ہے۔ دونوں کناروں سے کثرت آب کی وجہ سے اچھل رہا ہے، اس نے ٹھنڈی سانس لی، پھر قسم اٹھا کر کہا: اگر مجھے اس قید سے رہائی مل گئی تو میں ساری زمین اپنے قدموں تلے روند ڈالوں گا، پھر ٹھنڈی سانس لی اور کہا: سوائے طیبہ (مدینہ منورہ) کے، اس پر میرا کوئی بس نہیں چلے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سن کر میری خوشی کی انتہا ہو گئی، یہ طیبہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی طیبہ ہے، اللہ نے میرے حرم کو دجال پر حرام قرار دے دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی، قیامت تک کے لیے فرشتہ تلوار سونتے کھڑا ہے، دجال اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبله.»
حدیث نمبر: 877
Save to word اعراب
قال الشعبي، فلقيت القاسم بن محمد فقال: اشهد على عائشة رضي الله عنها انها قالت: الحرمان عليه حرام: مكة والمدينة.قَالَ الشَّعْبِيُّ، فَلَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ: مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: دو حرم: مکہ اور مدینہ اس (دجال) پر حرام ہیں۔

تخریج الحدیث: «مسند احمد: 373/6. قال شعيب الارناوط: حديث صحيح.»
حدیث نمبر: 878
Save to word اعراب
قال الشعبي: فلقيت المحرر بن ابي هريرة فحدثته حديث فاطمة بنت قيس فقال: اشهد على ابي انه حدثني بهذا الحديث، كما حدثتك فاطمة بنت قيس، ما نقصت حرفا واحدا عنه، إن ابي زاد فيه بابا واحدا قال: فحنط النبي صلى الله عليه وسلم بيده من نحو المشرق مما هو قريب من عشرين مرة.قَالَ الشَّعْبِيُّ: فَلَقِيتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي أَنَّهُ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، مَا نَقَصَتْ حَرْفًا وَاحِدًا عَنْهُ، إِنَّ أَبِي زَادَ فِيهِ بَابًا وَاحِدًا قَالَ: فَحَنَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ مِنْ نَحْوِ الْمَشْرِقِ مِمَّا هُوَ قَرِيبٌ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً.
شعبی رحمہ اللہ نے بیان کیا: میں المحرر بن ابی ہریرہ سے ملا تو میں نے انہیں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت بیان کی، تو انہوں نے کہا: میں اپنے والد کے پاس تھا کہ انہوں نے مجھے یہ حدیث اس طرح بیان کی جس طرح فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے تمہیں بیان کی، انہوں نے اس میں سے ایک حرف کی بھی کمی نہیں کی، میرے والد نے اس میں ایک باب کا اضافہ کیا، انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب تقریباً بیس بار لکیر کھینچی۔

تخریج الحدیث: «السابق»
حدیث نمبر: 879
Save to word اعراب
قال ابو اسامة: فحدثني من سمع عامرا، زاد في الحديث انه سالهم:" هل بنى الناس بالاجر بعد، وفيه انه ضرب قدمه باطن قدمه، وفيه انه قال: من قبل اليمن ما هو ثم قال: لا بل من قبل العنان".قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: فَحَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَامِرًا، زَادَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ سَأَلَهُمْ:" هَلْ بَنَى النَّاسُ بِالْأَجْرِ بَعْدُ، وَفِيهِ أَنَّهُ ضَرَبَ قَدَمُهُ بَاطِنَ قَدَمِهِ، وَفِيهِ أَنَّهُ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الْيَمَنِ مَا هُوَ ثُمَّ قَالَ: لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْعَنَانِ".
ابواسامہ نے کہا: جس شخص نے عامر سے سنا اس نے مجھے حدیث بیان کی، اس نے حدیث میں اضافہ نقل کیا، کہ انہوں نے ان سے پوچھا: کیا بعد میں لوگوں نے اجر تیار کیا، اور اس میں ہے کہ اس نے اپنے قدم کے اندرونی حصے سے اس کے قدم کو مارا، اور اس میں ہے کہ اس نے کہا: یمن کی جانب سے کیا وہ ہے، پھر کہا: نہیں بلکہ العنان کی جانب سے۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.