وقول الله تعالى: ولا تقبلوا لهم شهادة ابدا واولئك هم الفاسقون {4} إلا الذين تابوا سورة النور آية 3-4، وجلد عمر ابا بكرة، وشبل بن معبد، ونافعا بقذف المغيرة، ثم استتابهم، وقال: من تاب قبلت شهادته، واجازه عبد الله بن عتبة، وعمر بن عبد العزيز، وسعيد بن جبير، وطاوس، ومجاهد، والشعبي، وعكرمة، والزهري، ومحارب بن دثار، وشريح، ومعاوية بن قرة، وقال ابو الزناد: الامر عندنا بالمدينة، إذا رجع القاذف عن قوله فاستغفر ربه قبلت شهادته، وقال الشعبي، وقتادة: إذا اكذب نفسه جلد وقبلت شهادته، وقال الثوري: إذا جلد العبد، ثم اعتق جازت شهادته، وإن استقضي المحدود فقضاياه جائزة، وقال بعض الناس: لا تجوز شهادة القاذف وإن تاب، ثم قال: لا يجوز نكاح بغير شاهدين، فإن تزوج بشهادة محدودين جاز، وإن تزوج بشهادة عبدين لم يجز، واجاز شهادة المحدود والعبد والامة لرؤية هلال رمضان، وكيف تعرف توبته وقد نفى النبي صلى الله عليه وسلم الزاني سنة، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كلام كعب بن مالك وصاحبيه حتى مضى خمسون ليلة.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ {4} إِلا الَّذِينَ تَابُوا سورة النور آية 3-4، وَجَلَدَ عُمَرُ أَبَا بَكْرَةَ، وَشِبْلَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَنَافِعًا بِقَذْفِ الْمُغِيرَةِ، ثُمَّ اسْتَتَابَهُمْ، وَقَالَ: مَنْ تَابَ قَبِلْتُ شَهَادَتَهُ، وَأَجَازَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُتْبَةَ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِيُّ، وَعِكْرِمَةُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَمُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، وَشُرَيْحٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا بِالْمَدِينَةِ، إِذَا رَجَعَ الْقَاذِفُ عَنْ قَوْلِهِ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ قُبِلَتْ شَهَادَتُهُ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَقَتَادَةُ: إِذَا أَكْذَبَ نَفْسَهُ جُلِدَ وَقُبِلَتْ شَهَادَتُهُ، وَقَالَ الثَّوْرِيُّ: إِذَا جُلِدَ الْعَبْدُ، ثُمَّ أُعْتِقَ جَازَتْ شَهَادَتُهُ، وَإِنِ اسْتُقْضِيَ الْمَحْدُودُ فَقَضَايَاهُ جَائِزَةٌ، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ الْقَاذِفِ وَإِنْ تَابَ، ثُمّ قَالَ: لَا يَجُوزُ نِكَاحٌ بِغَيْرِ شَاهِدَيْنِ، فَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ مَحْدُودَيْنِ جَازَ، وَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ عَبْدَيْنِ لَمْ يَجُزْ، وَأَجَازَ شَهَادَةَ الْمَحْدُودِ وَالْعَبْدِ وَالْأَمَةِ لِرُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ، وَكَيْفَ تُعْرَفُ تَوْبَتُهُ وَقَدْ نَفَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّانِيَ سَنَةً، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ حَتَّى مَضَى خَمْسُونَ لَيْلَةً.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) فرمایا «ولا تقبلوا لهم شهادة أبدا وأولئك هم الفاسقون * إلا الذين تابوا»”ایسے تہمت لگانے والوں کی گواہی کبھی نہ مانو، یہی لوگ تو بدکار ہیں، مگر جو توبہ کر لیں۔“ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکرہ، شبل بن معبد (ان کے ماں جائے بھائی) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت رکھنے کی وجہ سے۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کر لے اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور عبداللہ بن عتبہ، عمر بن عبدالعزیز، سعید بن جبیر، طاؤس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، زہری، محارب بن دثار، شریح اور معاویہ بن قرہ نے بھی توبہ کے بعد اس کی گواہی کو جائز رکھا ہے اور ابوالزناد نے کہا ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں تو یہ حکم ہے جب «قاذف» اپنے قول سے پھر (مکر) جائے اور استغفار کرے تو اس کی گواہی قبول ہو گی اور شعبی اور قتادہ نے کہا جب وہ اپنے آپ کو جھٹلائے اور اس کو حد پڑ جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور سفیان ثوری نے کہا جب غلام کو حد قذف لگ جائے پھر اس کے بعد وہ آزاد ہو جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور جس کو حد قذف لگی ہو اگر وہ قاضی بنایا جائے تو اس کا فیصلہ نافذ ہو گا۔ اور بعض لوگ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) کہتے ہیں قاذف کی گواہی قبول نہ ہو گی گو وہ توبہ کر لے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر حد قذف لگے ہوئے گواہوں کی گواہی سے نکاح کیا تو نکاح درست ہو گا۔ اگر دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو درست نہ ہو گا اور ان ہی لوگوں نے حد قذف پڑے ہوئے لوگوں کی اور لونڈی غلام کی گواہی رمضان کے چاند کے لیے درست رکھی ہے۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ «قاذف» کی توبہ کیوں کر معلوم ہو گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو زانی کو ایک سال کے لیے جلا وطن کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں سے منع کر دیا کوئی بات نہ کرے۔ پچاس راتیں اسی طرح گزریں۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني ابن وهب، عن يونس، وقال الليث: حدثني يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عروة بن الزبير،" ان امراة سرقت في غزوة الفتح، فاتي بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم امر بها فقطعت يدها، قالت عائشة: فحسنت توبتها وتزوجت، وكانت تاتي بعد ذلك، فارفع حاجتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ،" أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ يَدُهَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا وَتَزَوَّجَتْ، وَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا اور ان سے یونس نے اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کر لی تھی۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کر لی اور شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتی تھی۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: A woman committed theft in the Ghazwa of the Conquest (of Mecca) and she was taken to the Prophet who ordered her hand to be cut off. `Aisha said, "Her repentance was perfect and she was married (later) and used to come to me (after that) and I would present her needs to Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 816
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔
Narrated Zaid bin Khalid: Allah's Apostle ordered that an unmarried man who committed illegal sexual intercourse be scourged one hundred lashes and sent into exile for one year.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 817