وراثت کے مسائل विरासत के नियम ورثاء کی موجودگی میں ایک تہائی مال کی وصیت جائز ہے “ वारिसों के होते हुए एक तिहाई माल की वसियत जाइज़ है ”
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع والے سال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری شدید بیماری کی وجہ سے میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے تو میں نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنا شدید درد بیماری ہے، میں مالدار آدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں“، میں نے کہا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیسرا حصہ صدقہ کر لو اور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ امیر ہوں تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تم اﷲ کی رضا مندی کے لیے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا حتی کہ تم اپنی بیوی کو جو نوالہ کھلاتے ہو توا س کا بھی اجر ملے گا۔“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اﷲ! میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے پھر تم جو بھی نیک عمل کرو گے تو تمہار ا درجہ بلند ہو گا اور عزت ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ تم میری وفات کے بعد پیچھے زندہ رہو حتی کہ تمہاری وجہ سے ایک قوم مسلمانوں کا فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کفار کو نقصان ہو گا، اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری فرما اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ پھیر لیکن مصیبت زدہ تو سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق غم اور افسوس کرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «68- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 763/2 ح 1533، ك 17 ب 3 ح 4) التمهيد 374/8، 375، الاستذكار: 1462، و أخرجه البخاري (1295) من حديث مالك به ورواه مسلم (1628) من حديث الزهري به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ»
|