(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: قدمنا الشام فاتانا ابو الدرداء، فقال: " افيكم احد يقرا علي قراءة عبد الله؟ قال: فاشاروا إلي، فقلت: نعم، قال: كيف سمعت عبد الله يقرا هذه الآية والليل إذا يغشى سورة الليل آية 1؟ قال: قلت: سمعته يقرؤها والليل إذا يغشى والذكر والانثى، فقال ابو الدرداء: وانا والله هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها، وهؤلاء يريدونني ان اقراها وما خلق سورة الليل آية 3 فلا اتابعهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهكذا قراءة عبد الله بن مسعود 0 والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والانثى 0.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَأَشَارُوا إِلَيَّ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقْرَؤُهَا وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، فَقَال أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَنِي أَنْ أَقْرَأَهَا وَمَا خَلَقَ سورة الليل آية 3 فَلَا أُتَابِعُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا قِرَاءَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0.
علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى»۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اسے «وما خلق» پڑھوں (یعنی «وما خلق والذكر والأنثى») تو میں ان کی بات نہ مانوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبداللہ بن مسعود کی قرأت بھی اسی طرح ہے: «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والأنثى»
وضاحت: ۱؎: مشہور قراءت ہے «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى وما خلق الذكر والأنثى» حدیث میں مذکور قراءت اس میں مذکور اشخاص ہی کی ہے، ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے، عثمان رضی الله عنہ کے قراءت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔