كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 11. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الأُضْحِيَةَ سُنَّةٌ باب: قربانی کے سنت ہونے کی دلیل۔
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأضاحي 2 (3124، 3124/م) (تحفة الأشراف: 6671) (ضعیف) (سند میں ”حجاج بن ارطاة“ ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواة سے ضعیف ہے، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاة کوفی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: بعض نے «من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا» جس کے ہاں مالی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا قول ہے، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1475 / التحقيق الثاني)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ (ہر سال) قربانی کرتے رہے۔
یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7645) (ضعیف) (سند میں ”حجاج بن ارطاة“ مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1475 / التحقيق الثاني)
|