كتاب الرضاع کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل 3. باب مَا جَاءَ لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ باب: ایک بار یا دو بار چھاتی سے دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار یا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“ ۱؎۔
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام فضل، ابوہریرہ، زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“۔ اور محمد بن دینار نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس میں محمد بن دینار بصریٰ نے زبیر کے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ۳- محدثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: «عبد الله بن الزبير عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ابن زبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں: زبیر کے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروہ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے زبیر سے روایت کی ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ۶- عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قرآن میں (پہلے) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھر اس میں سے پانچ منسوخ کر دی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ انہیں پانچ پر قائم رہا ۲؎، ۷- اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں، اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ۸- امام احمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی“ کے قائل ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی الله عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔ لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی، ۹- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 5 (1450)، سنن ابی داود/ النکاح 11 (2063)، سنن النسائی/النکاح 51 (3310)، سنن ابن ماجہ/النکاح 35 (1941)، (تحفة الأشراف: 16189) (صحیح) وأخرجہ کل من: مسند احمد (6/247)، وسنن الدارمی/النکاح 49 (2297) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: «مصّتہ» اور «رضعۃ» دونوں ایک ہی معنی میں ہے، جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر کسی عارضہ کے اپنی مرضی و خوشی سے چھاتی کو چھوڑ دیتا ہے تو اسے «مصّتہ» اور «رضعۃ» کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1941)
|