كتاب الرضاع کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل 1. باب مَا جَاءَ يُحَرَّمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يُحَرَّمُ مِنَ النَّسَبِ باب: رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں۔
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کر دئیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں“ ۱؎۔
۱- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابن عباس اور ام حبیبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10118) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ سات رشتے ہیں (۱) مائیں (۲) بیٹیاں (۳) بہنیں (۴) پھوپھیاں (۵) خالائیں (۶) بھتیجیاں (۷) بھانجیاں، ماں میں دادی نانی داخل ہے اور بیٹی میں پوتی نواسی داخل، اور بہنیں تین طرح کی ہیں: سگی، سوتیلی اور اخیافی، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی، اسی طرح باپ دادا اور ماں اور نانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اور «خالائیں علی ہذا القیاس» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (6 / 284)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام قرار دے دیئے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہیں“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 7 (2055)، سنن النسائی/النکاح 49 (3302)، (تحفة الأشراف: 16344)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2295) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الشہادات 7 وفرض الخمس 4 (3105)، والنکاح 20 (5099) و27 (5111)، صحیح مسلم/الرضاع 2 (1444)، سنن النسائی/النکاح 49 (3303، 3304، 3305)، سنن ابن ماجہ/النکاح 34 (1937)، موطا امام مالک/الرضاع 1 (3)، مسند احمد (6/66، 72، 102)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2291، 2292)، من غیر ہذا الوجہ۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1937)
|